کیا عمران خان اپنی حکومت کادورانیہ مکمل کر پائے گا یا پہلے ہی ۔۔۔ملکی سیاست میں کیا بڑا ہونے والا ہے ؟؟خیبر پختون خوا بلدیاتی انتخابات کے بعد ناقابل یقین پیشگوئی کر دی گئی

Advertisements

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کپتان خود فریبی کا شکار ہے، اردگرد ان کا جھمگٹا، جو خرابی کو ہوا دیتے ہیں۔ اس میں ان کی بقا ہے، اسی میں ان کا مفاد۔ کیا وہ ان سے چھٹکارا پائے گا یا ان کی نذر ہو جائے گا۔ یہ فیصلہ اسے خود کرنا
ہے۔ ایک سیاسی پارٹی کے نقطہ نظر سے پختون خوا میں پی ٹی آئی کی شکست بہت بڑا سانحہ ۔اْس سے بھی بڑا حادثہ مگر یہ ہے کہ شبلی فراز کے سوا پارٹی کے کسی ایک بھی لیڈر کا کوئی ایسا بیان سامنے نہیں آیا، حقیقت پسندی جس میں جھلکتی ہو۔شبلی فراز نے بھی یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ اپنی شکست وہ تسلیم کرتے ہیں۔ سب سے پہلے یوسفزئی بولے۔ الجھے اور سہمے ہوئے۔ کہا تو یہ کہا کہ مہنگائی چوٹ دے گئی۔ گویا یہ ایک خارجی حادثہ تھا۔ آسمان سے گرنے والی بجلی، طوفانِ بادوباراں یا کوئی سیلاب۔ خود حکومت کا کوئی تعلق گرانی سے نہیں تھا۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں وبا کی آفت سے، نرخ اوسطاً3.5فیصد بڑھے ہیں۔ پاکستان میں یہ شرح دس گیارہ فیصد کیوں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ سبب افراطِ زر ہے۔ افراطِ زر کی ایک وجہ بے شعور حکمرانی اور دوسری حریفوں کا ناک رگڑنے کی بے قابو خواہش۔ ایک بڑی وجہ روپے کی گرتی ہوئی قد ر اور اس سے پیدا ہونے والی بے یقینی ہے۔ سرمایا جس میں سہم کر تجوریوں میں بند ہو جاتا یا بیرونِ ملک فرارر ہونے لگتا ہے۔ خوف زدہ تاجر اپنا
ہاتھ روک لیتے یا قیمتیں بڑھا کر اپنا خسارہ پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ معیشت کا ایک ادنیٰ طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ اقتصادی زندگی میں بے یقینی سے بڑی بیماری کوئی نہیں ہوتی۔ عالم یہ ہے کہ بینک میں ڈالر کی قیمت، 180، 181روپے اور چور بازار میں 190روپے تک جا پہنچی ہے۔ عوامل سے سبھی واقف ہیں، تدارک کرنے والا کوئی نہیں۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ حالات پہ حکومت کی گرفت قائم نہیں۔ وہ فیصلہ سازی اور قوتِ عمل سے محروم ہو چکی۔ سندھ میں حریفوں کی حکومت ہے۔ ایسے بگڑے ہوئے لوگ،جن سے سدھار کی کوئی امید کبھی کسی حالت میں نہیں کی جا سکتی۔ کہنے کو بلوچستان میں بھی ایک حکومت قائم ہے مگر یہ حکومت نہیں، کوئی اور ہی چیز ہے۔ پارٹی اختلافات، مہنگائی، بے روزگاری ،بدحکومتی اور خطا کی بجائے خطا کاروں سے نفرت۔ گزارش ایک بار پھر وہی: کپتان خود فریبی کا شکار ہے، اردگرد ان لوگوں کا جھمگٹا، جو خرابی کو جو ہوا دیتے ہیں۔ اس میں ان کی بقا ہے، اسی میں ان کا مفاد۔ کیا وہ ان سے چھٹکارا پائے گا یا ان کی نذر ہو جائے گا۔ یہ فیصلہ اسے خود کرنا ہے۔

Leave a Comment