جسے کل کوئی نوکری نہیں دیتا تھا آج وہ لوگوں کو نوکریاں دیتا ہے۔۔۔ ایک ماں نے جسمانی معذور بچے کو کیسے دنیا کا کامیاب ترین انسان بنا دیا؟ جانئے

Advertisements

شادی کے بعد ہر جوڑے کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت مند اولاد سے نوازے ۔ صحت مند اولاد کے حصول کی دعا اور خواہش کا سب سے بنیادی سبب یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی بیماری یا معذوری کا شکار بچے نہ صرف اپنے لیے ایک امتحان ہوتے ہیں بلکہ
اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے والدین کے لیے بھی ایک مشکل آزمائش ہوتے ہیں ۔ان کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت بھی بہت دشوار ہوتی ہے ۔ اس کے بعد اس دنیا میں ان بچوں کو کامیاب لوگوں کی صف تک لے کر آنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے- یہی وجہ ہے کہ بہت سارے والدین اگر ایسے بچوں کی تربیت میں اگر ناکام ہو جائيں تو ایسے بچے نہ صرف ان کے لیے بوجھ بن حاتے ہیں بلکہ معاشرے کا بھی ایک غیر فعال حصہ بن جاتے ہیںبھارت سے تعلق رکھنے والا سومیت بھی ایک ایسا ہی بچہ تھا جو کہ اپنے والدین کا پہلا بچہ تھا اور پیدائش کے وقت ہونے والی پیچیدگیوں کے سبب قبل از وقت اس کو دنیا میں لانے کا فیصلہ کرنا پڑا تھا۔ نو مہینے دس دن کا وقت پورا کرنے کے بجائے سومیت کو ساتویں مہینے ہی اس دنیا میں لانے کا فیصلہ ڈاکٹروں کو کرنا پڑا تھا-پیدائش کے بعد سومیت اور اس کی ماں دونوں کی زندگی کو شدید خظرات لاحق تھے- پیدائش کے وقت ہی سومیت سیریبرل پالسی نامی بیماری کا شکار تھا جو کہ ایک دماغی بیماری ہے اور جس کے سبب سومیت پیدائش کے وقت ہی سے اپنے جسم کے ستر فی صد اعضا کو حرکت دینے سے قاصر تھا- جس کے علاج کے لیے فوری طور پر ڈاکٹروں کواس کی جان بچانے کے لیے چار میجر سرجریز کرنی پڑیں۔سومیت کو جب بھی آپریشن تھیٹر میں لے جایا جاتا تھا اس کی ماں روتے
ہوئے باہر کھڑی اپنے بچے کی زندگی کے لیے دعا مانگتی تھی اور انہی دعاؤں کے اثر سے وہ ہر بار زندہ بچ کے واپس آتا تھا- سومیت کی ماں جو پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل تھی اس نے سومیت کی اچھی پرورش کے لیے اپنے کیرئیر کو خیر آباد کر دیا اور اپنی پوری زندگی کو سومیت کی پرورش کے لیے وقف کر دیا-جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی سومیت کی معذوری کو لے کر معاشرے کے لفظوں کی تیز دھار سومیت کی ماں کے جگر کو چھلنی کرنا شروع کر دیا۔ لوگوں نے سومیت کی ماں کو اس کو کسی اسپیشل بچوں کے اسکول میں داخل کروانے کا بارہا مشورہ دیا مگر سومیت کی ماں نے اپنے بچے کو ذہنی معذور قرار دینے سے انکار کر دیا اور اس کے لیے عام بچوں کے اسکول میں داخلے کی کوششیں شروع کر دیں کیوں کہ ان کا یہ ماننا تھا کہ سومیت جسمانی معذور ضرور ہے مگر ذہنی طور پر معذور نہیں ہے- اس وجہ سے اس کو ایسے اسکول میں تعلیم حاصل کرنی چاہیے جہاں نارمل بچے پڑھتے ہیں-لیکن سومیت کی جسمانی معذوری کو دیکھتے ہوئے عام اسکولوں کی انتطامیہ نے اس کو داخلہ دینے سے منع کر دیا یہاں تک کہ سومیت کی ماں نے دسیوں اسکولوں کے فارم بھرے مگر ہر ایک نے داخلہ دینے سے منع کر دیا- بہت مشکلوں کے بعد بلاآخر وہ سومیت کا داخلہ نارمل بچوں کے ایک اسکول میں کروانے میں کامیاب ہوگئيں-اسکول کے پہلے دن سومیت کے اور اس کی ماں کے دل خوشی سے جھوم رہے تھے۔
ان کو لگا تھا کہ ان کی مشکلات کا خاتمہ ہو گیا مگر یہ ان کی خام خیالی تھی اسکول کے پہلے دن سے ہی اسکول کے بچوں نے سومیت کو ایک خلائی مخلوق سمجھنا شروع کر دیا اور اس کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیا- اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کی معذوری کا مذاق بھی بنانے لگے اس کے چل نہ سکنے پر طرح طرح کے فقرے چست کرنے لگے-اس موقع پر سومیت کی ماں نے اس کو بہت حوصلہ دیا اور اس کو ان مشکلات پر رونے کے بجائے ان کا مقابلہ کرنے کا سبق دیا اور اس طرح سے حوصلے کے ساتھ جب سومیت نویں کلاس میں پہنچا تو زندگی میں پہلی بار اس نے اسٹیج پر آکر پہلی بار لوگوں کے سامنے بات کی۔ ساری عمر کی تنقید نے اس کو بہت بہادر بنا دیا اور اس نے اپنی معذوری کو ہی اپنی طاقت بنا لیا اور اس طرح اسکول سے کالج تک کا سفر طے کیا-کالج کے بعد بی بی اے اور اس کے بعد مارکیٹنگ میں اعزازی نمبروں کے ساتھ ایم بی اے میں کامیابی نے سومیت کے دل میں یہ امید دلوا دی کہ اس کے مشکل دن ختم ہو گئے اور اب وہ کسی اچھی نوکری کے حصول کے بعد کامیاب زندگی گزارنے کے قابل ہو جائے گا-مگر مشکلیں ابھی
باقی تھیں اس کے بہترین رزلٹ کے باوجود کسی بھی جگہ پر نوکری کے لیے اس کی جسمانی معذوری ایک بار پھر آڑے ہو گئی اور ہر طرح کے انٹرویو میں کامیابی کے باوجود اس کو کسی بھی بہانے سے نوکری دینے سے منع کر دیا جاتا-ایک بار پھر سومیت نے اپنی معذوری کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے اس کو اپنی طاقت بنا لیا اور اپنے تجربات اور تعلیم کی بنیاد پر 2017 میں ایک پبلک ریلیشن کمپنی کی داغ بیل ڈال دی۔ اور اپنے گھر ہی سے اس نے اس کمپنی کا آغاز کر دیا ابتدا میں اس کے ساتھ کام کرنے والوں کی تعداد محدود تھی جو وقت اور کامیابی کے سبب بڑھتی گئی اور انتہائی قلیل وقت ہی میں اس کی کمپنی کی ایک شناخت بن گئی- اور اس جنوری اس کی اس کمپنی کو پورے بھارت میں کمپنی آف دا ائیر کے ایوارڈ سے بھی نوازہ گیا- اس طرح سے سومیت جو ایک نوکری کے حصول کا خواہشمند تھا اب بہت سارے اور لوگوں کو نوکری دینے کا ذریعہ بن گیا-سومیت کا اپنی زندگی کے حوالے سے یہ ماننا ہے کہ اس کا پورا سفر سخت ترین مشکلات سے بھرپور رہا ہے- مگر اس کی ماں کے دیے ہوئے سبق نے ہمیشہ اس کو حوصلہ دیا اور وہ آج اپنے جیسے سب لوگوں کے لیے ایک مثال بن گیا ہے جن کا ماننا ہے کہ معذوری کمزوری نہیں ہوتی ہے بلکہ ایک طاقت ہوتی ہے –

Leave a Comment