وہ وقت جب سعودی عرب نے پاک فوج کے 15000 جوان کرائے پر لینے کے لئے نوازشریف سے رابطہ کیا تو انہوں نے کیاجواب دیا تھا؟ جاوید چوہدری کا تہلکہ خیز سیاسی تجزیہ

Advertisements

لاہور (ویب ڈیسک) جنرل صاحب نے انکشاف کیا ‘ گلف وار کے دوران امریکا نے مشورہ دیا سعودی عرب میں موجود 15 ہزار پاکستانی فوجیوں کو سعودی کمانڈ میں دے دیا جائے‘ اس کے عوض پاکستان کو بھاری مالی امداد کا وعدہ کیا گیا‘ میاں نواز شریف وزیراعظم تھے‘ یہ تیار نظر آئے‘ میں نے وزیراعظم کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا
لیکن وہ مجھ سے متفق نہ ہوئے‘ میں نے میڈیا کو بتا دیا ’’ہماری فوج کرائے کی فوج نہیں‘ خطرہ سعودی عرب کو نہیں بلکہ صدام حسین کو ہے۔ نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ امریکا صدام کو کھلے میدانوں میں لا کر تباہ کرنا چاہتا ہے‘‘ میرے اس بیان پر میاں نواز شریف اور امریکا دونوں مجھ سے ناراض ہو گئے‘ جنرل اسلم بیگ نے دعویٰ کیا‘ رحمن ملک نے جنرل اسد درانی کو اصغر خان کیس میں میرے خلاف گواہی دینے کے لیے راضی کیا تھا‘ یہ اسد درانی سے ملاقات کے لیے جرمنی گئے تھے اور ان سے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے نام تحریری خط لکھوایا تھا‘ جنرل پرویز مشرف نے 2001میں افغانستان کے ایشو پر امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو اس نے مشورے کے لیے مجھے بھی بلایا‘ میں تین گھنٹے ان کی منطق سنتا رہا‘ تنگ آ گیاتو ان سے کہا ’’آپ نے جوفیصلہ کیا وہ بدترین ہے۔اس فیصلے کے نتائج پاکستان کی سلامتی کے لیے مہلک ثابت ہوں گے‘ ایک برادر اسلامی ملک کے خلاف غیروں کے ساتھ مل کر لڑائی میں شامل ہو جانا بے غیرتی ہے‘جنرل اسلم بیگ نے انکشاف کیا‘ جنرل ضیاء الحق نے 1987میں ڈاکٹر عبدالقدیر سے ایٹمی پروگرام پر اس سال کے اخراجات کی تفصیل مانگی‘ ہمیں ایک ماہ میں تفصیل مل گئی۔ہم یہ جان کر حیران رہ گئے ہمارے ایٹمی پروگرام پر دس سال میں کل اخراجات 300 ملین ڈالر تھے اور یہ رقم فرانس سے خریدی گئی ایک سب میرین کی
قیمت سے بھی کم تھی اور جنرل صاحب نے انکشاف کیا‘ پاکستان کوایٹمی قوت بنانے والی پانچ اہم شخصیات کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا یا پھر اقتدار سے جبری علیحدہ ہونا پڑا یا پھر غلط پروپیگنڈے کے ذریعے ان کی کردار کشی کی گئی اور وہ پانچ لوگ ذوالفقار علی بھٹو‘ جنرل ضیاء الحق‘ بے نظیر بھٹو‘ میاں نواز شریف اور ڈاکٹر عبدالقدیر ہیں۔جنرل اسلم بیگ نے اپنی کتاب کا نام اقتدار کی مجبوریاں کیوں رکھا اس کے بارے میں انھوں نے لکھا‘ جنرل ضیاء الحق نے 1988 میں محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کی تو ان کے ذہن میں ایک بار پھر ایک نئے سیاسی نظام کا تصور ابھرا‘ انھوں نے مجھے اور حمید گل کودوبارہ رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی‘ میں نے رپورٹ بنا کر کہا ’’الیکشن کرایے اور اقتدار سے الگ ہو جایے‘ تاریخ آپ کو ایک مہربان ڈکٹیٹر کے نام سے یاد کرے گی‘‘ وہ بولے ’’آپ نے بہت صحیح کہا لیکن اقتدر کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں‘‘ اوربات ختم ہو گئی۔جنرل اسلم بیگ کی کتاب اچھی ہے تاہم اس میں بے نظیر بھٹو کے خلاف آئی جے آئی کی تشکیل اور کراچی میں ایم کیو ایم کی پرورش کے بارے میں کوئی انکشاف نہیں کیا گیا شاید یہ جنرل اسلم بیگ کے اقتدار کی مجبوریاں تھیں۔

Leave a Comment