ایک پاکستانی لڑکی کی لگن ہمت اور جدوجہد سے کمرشل پائلٹ بننے کی حیران کن داستان، پڑھ کر آپ بھی داددئیے بغیر نہ رہ پائیں گے

Advertisements

لاہور (ویب ڈیسک) نامور خاتون مضمون نگار سارہ عتیق بی بی سی کے لیے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بیٹی کے خواب دیکھنے اور اُن کو پورا کرنے کے لیے والد کی کیا اہمیت ہے یہ تو وہی بتا سکتی ہیں جن کے خوابوں پر پہلا پہرا اُن کے گھر میں یہ کہہ کر ڈال دیا جاتا ہے
کہ ’لوگ کیا کہیں گے‘ یا ’لڑکیاں تھوڑی ہی یہ سب کرتی ہیں۔‘اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے والدین اپنے بچوں کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے اکثر اپنے خواب قربان کر دیا کرتے ہیں لیکن وہیں یہ بھی ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے بہت سی لڑکیاں صرف اس لیے اپنے خواب پورے نہیں کر پاتیں کیونکہ انھیں اپنے والد، بھائی یا گھر والوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہوتا ہے اور اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لیے انھیں پہلی جنگ اپنے گھر میں ہی لڑنا پڑتی ہے۔میں بذات خود انھیں لڑکیوں میں سے ہوں۔گریجویشن میں سائنس کی جگہ آرٹس کا انتخاب، ماسٹرز میں ’کو ایجوکیشن‘ والی یونیورسٹی یا صحافت جیسے شعبے، جس میں غالب اکثریت مردوں کی ہے، میں کام کرنے کا میرا فیصلہ۔۔۔ والد کی مخالفت اسی صورت کچھ کم ہوئی جب خاندان کا کوئی تیسرا فرد بیچ میں پڑا اور مجھ سے ہزاروں قسم کی یقین دہانیاں لی گئیں اور ’کیا کرنا ہے اور کیا نہیں‘ کی ایک لمبی فہرست مجھے تھما دی گئی۔جب آج سے پانچ سال قبل میڈیا میں پہلا قدم رکھا اور والد صاحب کو بتایا کہ ’مجھے ایک ٹی وی چینل میں نوکری ملی ہے‘ تو ان کے منھ سے نکلنے والے پہلے الفاظ یہی تھے کہ ’خبردار! میں تمھیں ٹی وی پر نہ دیکھوں۔‘شروع کے کچھ دنوں میں تو میں نے اپنی رپورٹس میں صرف اپنی آواز استعمال کرنے سے ہی کام چلایا لیکن جہاں ایک طرف میرے باس نے موضوع کی مناسبت سے کیمرے کے سامنے آ کر رپورٹ کرنے کا مطالبہ کیا وہیں میرے اپنے شوق نے بھی مجھے تھوڑا مجبور کیا۔
تو بس میں نے کیمرے کے سامنے آ کر رپورٹ کر دی لیکن جب رپورٹ چلنے کا وقت آیا تو والد صاحب کے الفاظ ’خبردار! میں تمھیں ٹی وی پر نہ دیکھوں‘ یاد آ گئے اور تھوڑا خوف طاری ہوا۔اب پچنے کا یہی طریقہ تھا کہ واقعی میرے والد صاحب مجھے ٹی وی پر نہ دیکھیں۔ تو میں نے فوراً سے گھر میں موجود اپنی چھوٹی بہن کو کال کی اور اس سے کہا کہ ’جب پاپا مغرب کی نماز پڑھنے جائیں تو باہر جا کر کیبل کی تار نکال دینا اور کہنا کیبل خراب ہو گئی ہے۔ جب میرے پروگرام کا وقت نکل جائے اور میری رپورٹ چل جائے تو چُپکے سے تار واپس لگا دینا۔‘میرا پلان بُرا نہیں تھا اور کچھ دن اس نے بہترین کام بھی کیا۔ لیکن آخر کار وہ بھی میرے ہی والد ہیں۔ انھیں معلوم ہو گیا کہ ٹھیک پروگرام کے اوقات میں کیبل کا خراب ہونا اور پروگرام ختم ہوتے ہی اس کا اچانک ٹھیک ہو جانا محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔ تو اس طرح یہ رسہ کشی چلتی رہی۔اس دن سے لے کر میرے بی بی سی آنے تک کا سفر طویل ہے لیکن اس دوران پیش آنے والی بڑی تبدیلی کا خلاصہ یہ ہے کہ اب سے کچھ ہفتوں پہلے میرے والد میری سب سے چھوٹی بہن کو خود لاہور لے کر گئے اور اس کا داخلہ ایک کالج میں سائنس کی جگہ میڈیا سائنسز میں کروایا۔ اپنی بہن کی اس کامیابی میں مجھے اپنی کامیابی نظر آئی۔مگر پاکستان میں ایسے بھی لوگ ہیں جن کا تجربہ میرے تجربے سے بہت الگ رہا ہے۔
خوش بخت اپنے نام کی طرح خوش قسمت تھیں کہ انھیں ایک ایسے والد ملے جنھوں نے اُن کے خوابوں کو ایک حقیقت بنانے میں ہر ممکن مدد فراہم کی۔ اور ان تمام معاشرتی رویوں کا خود سامنا کیا جو ان کی بیٹی کے خوابوں کے آڑے آتے رہے۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے بچپن سے فضا میں اُڑنے کا بہت شوق تھا اور میں پائلٹ بننا چاہتی تھی۔ لیکن ہمارے خاندان میں اگر لڑکیوں کو کچھ بننے کی اجازت تھی تو وہ تھا ڈاکٹر۔‘خوش بخت خان چھ بہنوں اور ایک بھائی میں سب سے بڑی ہیں۔ وہ پڑھائی میں کمزور نہیں تھیں لیکن تمام تر دباؤ کے باوجود اُن کا دل ڈاکٹری کی تعلیم کی جانب مائل نہیں ہوا۔’میرے ابو نے دیکھا کہ ڈاکٹر بننے کے دباؤ نے مجھے کچھ اُداس کر دیا ہے تو انھیں نے مجھے کہا کہ اگر تم ڈاکٹر نہیں بننا چاہتی ہو تو نہ بنو اور وہ کرو جو تمھارا دل کرتا ہے۔‘خوش بخت نے اپنے والد کو بتایا کہ وہ کمرشل پائلٹ بننا چاہتی ہیں جس پر ان کے والد نے انھیں یقین دلایا کہ وہ ان کی ہر ممکن حمایت کریں گے۔’وہ ہر قدم پر میرے ساتھ تھے۔ انھوں نے میرے لیے فلائنگ اکیڈمی کا انتخاب کیا۔ میرا داخلہ وہاں کروایا اور مجھے روز وہاں چھوڑنے اور لینے جاتے ہیں۔‘مگر خوش بخت کے لیے بھی سب کچھ اتنا آسان نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے اس فیصلے کی مخالفت بہت سے لوگوں نے کی۔ ’لوگ میرے ابو کو کہتے تھے کہ ’آپ پٹھان ہیں، آپ نے کیسے اپنی بیٹی کو ایک ایسے پیشے کی اجازت دی جس میں زیادہ تر مرد ہیں؟‘
خوش بخت کہتی ہیں ان کے والد نے اس مخالفت کے باوجود ان کی بھرپور حمایت جاری رکھی اور یہ انھی کی محنت کا نتیجہ ہے کہ وہ جلد ہی اپنا کمرشل پائلٹ لائسنس حاصل کر لیں گی۔’جب میں نے اپنی پہلی اکیلے فلائٹ کی تو میرے خاندان والوں نے اس بات پر بہت فخر محسوس کیا کہ میں ان کے خاندان کی پہلی پائلٹ ہوں۔ اور اب میرے خاندان کے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہم بھی اپنی بیٹی کو پائلٹ بنائیں گے۔‘خوش بخت سمجھتی ہیں کہ اگر انھیں اپنے والد کی سپورٹ حاصل نہ ہوتی تو وہ کبھی بھی اپنا پائلٹ بننے کا خواب پورا نہ کر پاتیں۔ ’میں کہوں گی کہ اگر میرے والد نہ ہوتے تو میں اس خواب کو دیکھنے کے قابل بھی نہیں تھی۔ میرے خوابوں کو حقیقت بنانے اور میری منزل تک پہنچنے کا راستہ میرے والد ہیں۔‘یہ ممکن ہے کہ گھر کے دباؤ کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں درپیش حالات کے آگے ہتھیار ڈال دیں اور ایسے خواب دیکھنا چھوڑ دیں جن کے حصول کے لیے پہلی لڑائی گھر میں ہی لڑنی پڑے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے والد کی حمایت دیکھ کر لڑکیوں کا حوصلہ پہلے سے مزید بڑھ جائے اور ان کی توجہ اپنے مقصد تک محدود ہو جائے۔تمام مشکلات کو عبور کر کے اپنی منزل تک پہنچنے والی ہر عورت اپنے بعد آنے والے لڑکیوں کے لیے ایک راستہ ہموار کر دیتی ہے اور معاشرے میں تبدیلی لاتی ہے۔کبھی انھیں اپنی محنت سے اپنے گھر اور اردگرد کے لوگوں کی سوچ کو تبدیل کرنا پڑتا ہے تو کبھی ان کے گھر والے انھیں اس قابل بناتے ہیں کہ وہ معاشرے میں مثبت بدلاؤ لائیں۔

Leave a Comment