شرم وحیا اور غیرت کسے کہتے ہیں ؟لاہور کے مشہور دشمن دار گوگی بٹ کا ایک واقعہ پڑھ کر آپ جان جائیں گے

Advertisements

پندرہ سولہ سال پہلے ایک وقوعہ ایوان عدل کے باہر ہوا جس میں پانچ /چھ افراد موقع پر زندگی سے محروم ہو گئے اور پانچ /چھ لوگ گھائل ہوئے ۔ اس واقعہ کا مقدمہ خواجہ عقیل احمد (شیر لاہور گوگی بٹ) کے علاوہ دیگر افراد پر قائم ہوا۔ بہت بڑا مقدمہ تھا۔
پولیس متعلقہ ،ایس پی، ایس ایس پی، اور ایس پی سی آئی اے سمیت ایس ایس پی انوسٹی گیشن، ایس پی آپریشن اور دیگر ہائی فائی افسران نے اکٹھے انکوائری کی۔ پولیس افسران بھی شیر لاہور گوگی بٹ اور مدعی مقدمہ بھی موجود تھے۔ مدعی مقدمہ نے کہا کہ گوگی بٹ اپنا حلف خود دے دے کہ وہ بے گناہ ہے تو ان کے بیان اور حلف پر میں مقدمہ کی تفتیش مان لوں گا۔ اتفاق سے مجھے ان میں سے ایک پولیس آفیسر نے بتایا کہ جب ہم نے خواجہ عقیل احمد گوگی بٹ سے کہا کہ آپ اپنا حلف خود دیں تو شیر لاہور گوگی بٹ نے ایک لمحہ سوچا اور خیال کیا کہ میں نیک اور عبادت گزار ماں باپ کی اولاد ہوں میری والدہ تسبیح اور قرآن نماز روزہ اور شعار دین کی پابند ہے لہٰذا دنیا داری اور مقدمہ بازی میں اللہ کی کتاب کا سہارا نہیں لوں گا ۔ شیر لاہور گوگی بٹ نے کہا کہ آپ بھلے مجھے گناہ گار لکھ دیں تفتیش میرٹ پر کریں مگر میں حلف نہیں دوں گا۔ گویا خوفناک 302 کی دشمنی تھی مدعی مقدمہ گوگی بٹ شیر لاہور
کے لیے یہ یقین رکھتے تھے کہ یہ جان بچانے کے لیے حلف نہیں دیں گے اور انہوں نے حلف نہ دیا۔ اپنے آپ کو گناہ گار لکھوا لیا،اللہ کی کتاب قرآن عظیم کی عظمت کا خیال رکھا بہرحال یہ دنیا کا شاید واحد مقدمہ ہو کہ پانچ/چھ 302 کے کیس اورپانچ/چھ گھائل اور ملزم ایک گھنٹہ بھی تھانے میں بند نہ ہو اور میرٹ پر عدالت سے بری ہو جائے ۔ کردار ایسی ناقابل تردید حقیقت ہوا کرتی ہے کہ مخالف بھی اس کی گواہی دے دیا کرتے ہیں۔ آج کوئی بالی پہلوان اور رحیم بخش سلطانی والا ہے اور نہ ہی کوئی غلام دستگیر خان اور حاجی امان حتیٰ کہ نہ ہی آج شیر لاہور گوگی بٹ ایسا یقین ہے کسی میں اور نہ اس مقدمہ جیسا مدعی کہ مخالف کے کردار پر بھروسہ کرتے ہوئے کہے کہ یہ خود حلف دے دیں۔ کہنے کو ہماری معاشرت ارتقائی منازل طے کر رہی ہے۔ ضرور کر رہی ہے مگر تنزلی کی جانب نہ کہ ترقی کی جانب۔

Leave a Comment