کیا عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے جلسوں کے دباؤ میں آچکے ہیں ؟ سہیل وڑائچ اور حامد میر کا خصوصی تبصرہ

Advertisements

لاہور (ویب ڈیسک) کیا پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان کی عوامی مقبولیت کے باعث ملکی ادارے دباؤ محسوس کر رہے ہیں اس پر تجزیہ کاروں نے ملا جلا تبصرہ کیا۔تجزیہ کار حامد میر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ عدلیہ اور
بلخصوص سپریم کورٹ تحریک انصاف کے حالیہ جلسوں کے بعد دباؤ میں آئی ہے اور 63 اے کے تحت صدارتی ریفرنس پر جس طریقے سے رائے دی گئی آئینی ماہرین کے مطابق تو سپریم کورٹ نے آئین میں ترمیم ہی کر دی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے خلاف کیسز کا معاملہ عمران حان نے عوامی جلسوں میں اٹھایا تھا اور اس کے بعد سپریم کورٹ نے اس پر از خود نوٹس لیتے ہوئے اس پر کارروائی کا آغاز کر دیا۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ بظاہر از خود نوٹس ایک جج کے نوٹ پر لیا گیا لیکن عوام میں اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ یہ سارا معاملہ عمران خان کے مطالبے کے بعد شروع کیا گیا۔انھوں نے کہا کہ ’بظاہر اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کے جلسوں سے متاثر نہیں ہوئی اور ان کا ابھی تک یہی موقف ہے کہ فوج اس معاملے میں نیوٹرل ہے اور اس کا سیاسی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘ حامد میر کا کہنا تھا کہ چونکہ فوج آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت حکومت کا ایک ماتحت ادارہ ہے اس لیے انھیں ان کی حمایت کرنی چاہیے۔تجزیہ کار سہیل ورائچ کا کہنا ہے کہ ججز کی اپنی سوچ ہوتی ہے اور وہ ان چیزوں کو اپنے زاویے سے دیکھتے ہیں جو کہ شاید عام آدمی اس نظر سے نہ دیکھ رہا ہو۔انھوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ عدالتیں کسی کے دباؤ میں آکر فیصلے دیتی ہیں تاہم یہ ضرور ہے کہ عدالتوں کو فیصلہ دیتے ہوئے اس بات کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے کہ وہ کہیں آئین میں دیے گئے اپنے اختیارات سے تجاوز تو نہیں کر رہیں۔انھوں نے کہا کہ کسی سیاسی لیڈر کے بارے میں فیصلہ دیتے ہوئے اس کی مقبولیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

Leave a Comment