حکومت کا آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر!!! عوام کی چیخیں نکالنے کی تیاریاں!! کتنی اشیاء پر ٹیکسل لگے گا، تشویشناک اعدادوشمار منظر عام پر

Advertisements

لاہور: (ویب ڈیسک) سینئر کالم نگار ہارون مرزا اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ” پاکستان میں وفاقی حکومت نے بدترین مہنگائی اور بیروزگاری جیسے سنگین مسائل کے دوران قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کر کے تقریباً 150اشیاء پر سیلز ٹیکس کی مد میں دی جانیوالی چھوٹ ختم یا اس میں17فیصد تک اضافہ کر کے مہنگائی کا ایک نیا طوفان برپا کرنیکی تیاری مکمل کر لی ہے۔
حکومت کو اپنے خزانے میں 343 ارب روپے اضافے کی توقع ہے، دوسری طرف اس بجٹ پر نہ صرف اپوزیشن بلکہ عوامی حلقوں میں بھی غم وغصہ پایا جاتا ہے اور لوگ احتجاج کررہے ہیں پاکستان میں ایک اور منی بجٹ پر شورشرابہ زور پکڑتا جا رہا ہے، اپوزیشن مہنگائی کے ایشو کو لیکر 23مارچ کو لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کر چکی ہے، بدقسمتی سے ملک میں منی بجٹ صرف آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے ہی لایا جاتا ہے، جس میں مزید ٹیکس عوام کے سر پر تھوپ دیے جاتے ہیں، اپوزیشن رہنمائوں کی طرف سے مہنگائی کیخلاف آواز اٹھانے کے بعد یوٹیلٹی بلز میں اضافہ کے بعد سوشل میڈیا پر آئے روز بلوں کو نظر آتش کرنیکی ویڈیوز نظروں سے گزر رہی ہیں جو اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان مکافات عمل کا شکار ہیں، ماضی میں وہ بلوں کو نظر آتش کر کے عوام کو سول نافرمانی پر اکساتے رہے، چین میں کرپشن کرنے والوں کو آج بھی کمر میں گولی مار کر ہلاک کردیا جاتا ہے جبکہ ہمارا یہ حال ہے کہ ہم ایک طرف تو جمہوریت پر فریفتہ ہیں دوسری طرف کرپٹ خاندانوں کو اپنے سر پر مسلط کیا ہوا ہے، ہم جیسے ممالک میں جمہوریت کے نام پر اپنے ایجنٹ بٹھا دیے جاتے ہیں جو ان کے مفادات کا مکمل خیال رکھتے ہیں‘وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کی جانب سے پیش کیے گئے اس حالیہ منی بجٹ کو حزب اختلاف کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اپوزیشن کا موقف ہے کہ یہ بجٹ ملک میں مہنگائی کی ایک نئی لہرکو جنم دے گا تاہم وزیر خزانہ نے اس بجٹ سے غریب آدمی کے متاثر ہونے کے امکان کو مسترد کیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے منی بجٹ کے دفاع اور اس سے غریب آدمی کے متاثر نہ ہونے کے دعوے کو معیشت اور تجارت سے وابستہ افراد مسترد کرتے ہیں ،ان کے مطابق منی بجٹ نا صرف مہنگائی میں اضافہ کرے گا بلکہ اس کی وجہ سے ملک کی معاشی شرح نمو پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے، جس کی وجہ خام مال پر لگنے والا سیلز ٹیکس یا ان پر دی گئی چھوٹ کا خاتمہ ہے جو ملک میں پیداواری عمل کو سست کر سکتا ہے ،منی بجٹ کے مطابق شیرخوار/بچے کے دودھ پر اب ٹیکس لگے گا (خام مال اور فائنل پراڈکٹ دونوں پر سترہ سترہ فیصد)فارماسیوٹیکل مصنوعات کے خام مال پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس اور بیکریوں میں تیار روٹی کی مصنوعات پر ٹیکس (جو پہلے مستثنیٰ تھے کھلے میں فروخت ہونے والی سرخ مرچ پر بھی 17 فیصد ٹیکس لگے گا،درآمد شدہ دہی، پنیر، مکھن، کریم، دیسی گھی، چینی پر ٹیکس 10 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد کرنے کی تجویز ہے‘وفاقی اور صوبائی ہسپتالوں کی طرف سے درآمد کردہ یا عطیہ کردہ سامان پر 17 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے گا اور مانع حمل ادویات پر بھی ٹیکس لگے گا۔آئوڈائزڈ نمک، کچے پولٹری آئٹمز اور کپاس کے بیج پر ٹیکس لگے گا،چاندی اور سونے پر جی ایس ٹی 1 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد اور زیورات پر بھی 17 فیصد ہو جائے گا،بیرون ملک مقیم
پاکستانیوں اور سیاحوں کے ذریعے درآمد کیے گئے ذاتی استعمال کے ملبوسات اور ذاتی سامان پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے گا، پرسنل کمپیوٹرز، لیپ ٹاپ کمپیوٹرز، نوٹ بکس، چاہے ملٹی میڈیا کٹ کو شامل کیا جائے یا نہ کیا جائے، کو بھی نئے ٹیکس کا سامنا کرنا پڑے گا،ماچس پر بھی 17 فیصد ٹیکس وصول کیا جائیگا اور حکومت دعویدار ہے کہ غریب متاثر نہیں ہوگا، ڈیری پروڈکٹس بنانے میں استعمال ہونے والی مشینری اور سامان پر پانچ فیصد کی جگہ 17 فیصد ٹیکس لگے گا،موبائل فونز پر فکسڈ ریٹ کی جگہ 17 فیصد ٹیکس لگے گا اور موبائل فون کالز پر ٹیکس بھی 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کیا جائے گا موبائل فونز مقامی طور پر بنانے والی انڈسٹری کو بھی مشینری کی درآمد پر 17 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا،وزیر خزانہ کے اس دعوے کہ منی بجٹ سے غریب آدمی متاثر نہیں ہو گا، کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماہرین ٹیکس امورکا دعویٰ ہے کہ وزیر خزانہ کے دعوے میں حقیقت نہیں اور یہ منی بجٹ مہنگائی کی نئی لہر کو جنم دیگا، ملک میں بیکری آئٹم ایک عام آدمی ہی استعمال کرتا ہے جس میں امیر و غریب دونوں شامل ہیں، اب اس پر سیلز ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے اسی طرح پیکٹوں میں دستیاب مرچوں اور مصالحوں پر بھی سیلز ٹیکس لگا دیا گیا ہے جس کا خریدار امیر کے ساتھ غریب آدمی ہی ہوتا ہے۔
درآمد کیے گئے خام مال پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے یا اس پر سیلز ٹیکس کی شرح کو بڑھا دیا گیا ہے، جس سے یہ خام مال مہنگا ہو گا جو پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث بنے گا اور صنعت کار عام صارفین کو زیادہ مہنگی مصنوعات بیچے گا، جس کے خریدار امیر و غریب سب ہوتے ہیں، ادویات کے خام مال کی درآمد پر 17 فیصد جی ایس ٹی تجویز کیا گیا ہے اور حکومت کہتی ہے کہ یہ قابل واپسی ہو گا مگر پاکستان میں ریفنڈز کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ بہت عرصے بعد ملتے ہیں اور صنعت کار اشیا کی قیمت میں اضافہ کر کے عام آدمی سے قیمت وصول کر لیتا ہے، چنانچہ حکومت کی جانب سے لگائے سیلز ٹیکس سے ملک میں دوائیں مزید مہنگی ہوں گی اور اس کا اثر غریب آدمی پر بھی پڑیگا، حکومت آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط لینے کے لیے لوگوں کی جیب سے دو ارب ڈالر نکالنے جا رہی ہے، منی بجٹ کی منظوری کے بعد لوگوں کی قوت خرید میں کمی آئیگی جو ایک غریب آدمی کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مزید مشکلات کا شکار بنائیگا،فیڈریشن آف پاکستان چمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے بھی اس پر تحفظا ت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خام مال کے مہنگا ہونے سے جب مصنوعات مہنگی ہوتی ہیں تو یہ سمگلنگ میں اضافے کا باعث بنتی ہیں، ملک میں خوردنی تیل کی زیادہ
قیمت کی وجہ سے ایران سے سمگل شدہ خوردنی تیل اب زیادہ مارکیٹ میں آ رہا ہے، جس کا اثر خوردنی تیل کی صنعت پر پڑ رہا ہے پاکستان میں حکومت کی جانب سے منی بجٹ کا پیش کرنا آئی ایم ایف کے مطالبات کا ایک حصہ ہے، جنہیں پورا کر کے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط وصول ہو سکتی ہے،پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کی اگلی قسط کے لیے پاکستان کا کچھ پیشگی اقدامات اٹھانا لازمی ہے، جن میں ایک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا خود مختاری کا بل ہے اور اس کیساتھ 400 ارب روپے اضافی ٹیکس اکٹھا کرنا ہے‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بجٹ کے پاس ہونے سے قبل غریب پر پڑنے والے منفی اثرات سے متعلق حکومت اپنی پالیسی واضح کرے اور خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنیوالوں کیلئے حکمت عملی مرتب کرے ورنہ آنیوالی مہنگائی کا طوفان سب کچھ بہا جائیگا۔

Leave a Comment