کون جنت میں جائے گا اور کون جہنم میں ؟ جاوید چوہدری کی ایک خوبصورت تحریر

Advertisements

لاہور(ویب ڈیسک) نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اینجلا مرکل نے 18سال پہلے برلن میں ایک فلیٹ خریدا تھا‘ یہ درمیانے سائز کا مڈل کلاس فلیٹ ہے‘ یہ 18سال سے اپنے خاوند جوکم سیور (Joachim Sauer) کے ساتھ اسی فلیٹ میں رہائش پذیر ہے‘ خاوند یونیورسٹی میں کیمسٹری کا پروفیسر ہے‘ یہ کبھی لائم لائٹ میں
نہیں آیا‘ روز بس پر یونیورسٹی جاتا ہے اور اسے اگر بیرون ملک سفر کرنا پڑے تو یہ سستی ایئر لائینزپر اکانومی کلاس میں ٹریول کرتا ہے‘ یہ دونوں میاں بیوی 23سال سے اکٹھا ناشتہ کرتے ہیں‘ ناشتہ سادہ ہوتا ہے اور یہ دونوں مل کر بناتے ہیں۔برتن بھی دونوں دھوتے ہیں اور اس کے بعد اینجلا مرکل چانسلر کی گاڑی میں آفس چلی جاتی ہیں جب کہ خاوند بس یا پھر چھوٹی ذاتی گاڑی میں یونیورسٹی روانہ ہوجاتا ہے‘ اینجلا مرکل نے 20سال سے نئے قیمتی کپڑے نہیں خریدے‘ وارڈروب میں تیس پرانی جیکٹس‘ کوٹس اور لانگ کورٹس ہیں‘ اس کے پاس ٹراؤزر بھی صرف سفید رنگ کے ہیں اور یہ دنیا کو 18سال سے انھی وائٹ ٹراؤزرز میں نظر آرہی ہے‘ اس کے کوٹ اور جیکٹس بھی تبدیل نہیں ہوئیں‘ اس کے پاس صرف ایک نیکلس ہے ‘ دنیا نے آج تک اس کے گلے میں صرف یہی نیکلس دیکھا‘ ہیئراسٹائل بھی ایک ہی رہا‘ یہ کبھی بال بنوانے کے لیے بھی سیلون نہیں گئی۔صرف تین شوق ہیں‘ ہائیکنگ‘ فٹ بال کے میچ اور کھانا بنانا‘ اینجلا پروفیشنل شیف ہے‘ اینجلا مرکل نے اقتدار کے 15برسوں میں روزانہ 20 گھنٹے کام کیا‘ یہ صرف چار گھنٹے سوتی ہے تاہم اس کا کہنا ہے میں مزاج کے لحاظ سے اونٹ ہوں‘ میں اپنی نیند اسٹور کر لیتی ہوں‘ چھٹی کا دن آتا ہے تو میں لمبی نیند لے لیتی ہوں جب کہ عام دنوں میں میری نیند صرف چار گھنٹے ہوتی ہے‘ یہ اپنے اسٹاف کو ہر وقت دستیاب رہتی ہیں‘
اسے سحری کے وقت بھی فون کیا جاتا تھا تو یہ فون خود اٹھاتی تھی اور اس کی آواز میں کسی قسم کی تھکاوٹ نہیں ہوتی تھی۔لوگ اس کے یکساں ہیئراسٹائل‘ ایک جیسے کپڑے اور ایک نیکلس کا مذاق اڑاتے ہیں تو یہ ہنس کر جواب دیتی ہے ’’میں جرمنی کی چانسلر ہوں‘ فیشن گرل نہیں‘‘ یہ 2008 میں ناروے میں فیشن شو میں مدعو تھی‘ یہ ناروے کے وزیراعظم کے ساتھ شو میں گئی لیکن پورے ہال میں سب سے سستے کپڑے اس نے پہن رکھے تھے‘ اس کے سوٹ کی مالیت صرف پانچ یورو تھی اور وہ بھی چار سال پرانا تھا جب کہ ویٹرز تک کے ڈریس مہنگے اور ماڈرن تھے مگر اس سستے سوٹ کے باوجود پورے ہال میں آئرن لیڈی صرف ایک ہی تھی اور اس کا نام تھا اینجلا مرکل۔ یہ کپڑوں پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیشہ کہتی ہے ’’مرد عورتوں کو صرف اور صرف فیشن سمبل سمجھتے ہیں۔یہ اگر خود چھ چھ ماہ ایک ہی شرٹ‘ پتلون اور کوٹ پہنتے رہیں انھیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی لیکن یہ خواتین کو ہمیشہ نئے اور مہنگے کپڑوں میں دیکھنا چاہتے ہیں‘‘ اس کا کہنا ہے ’’ہم اپنے گندے کپڑے رات کو مشین میں ڈالتے ہیں کیوں کہ رات کے وقت بجلی بھی زیادہ ہوتی ہے اور سستی بھی تاہم مجھے ہر وقت یہ خوف رہتا ہے مشین کی وجہ سے ہمارے ہمسایوں کی نیند خراب نہ ہوتی ہو لہٰذا میں ایک دن ان کے پاس گئی اور ان سے رات کے وقت مشین چلانے کی باقاعدہ اجازت لی‘‘ اینجلا مرکل کو
کتوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔روس کے صدر پیوٹن ایک میٹنگ میں انھیں ڈرانے کے لیے اپنا لیبراڈر ساتھ لے آئے‘ اینجلا مرکل نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’پیوٹن مجھے یہ بتانا چاہتے تھے وہ مرد ہیں اور میں عورت‘‘ یہ خیال درست ہو سکتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے دنیا بھر کے تمام مرد مل کر بھی اس عورت کو کم زور ثابت نہیں کرسکتے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ وہ عورت ہے جس نے ثابت کر دیا عورتیں لوہا بھی ہو سکتی ہیں اور دنیا کی بہترین حکمران بھی۔مجھے 2009 میں اینجلا مرکل کو دیکھنے اور ملنے کا اتفاق ہوا‘ یوسف رضا گیلانی جرمنی کے دورے پر گئے تھے‘ میں ان کے وفد میں شامل تھا‘ اینجلا مرکل نے اس وقت یوسف رضا گیلانی سے کہا تھا ’’جب تک کسی ملک کی پارلیمنٹ مضبوط نہیں ہوتی اس وقت تک اس کے حکمران مضبوط نہیں ہوتے‘ میں روز اپنے دفتر کی کھڑکی سے جرمن پارلیمنٹ کو دیکھتی ہوں اور اپنے آپ سے کہتی ہوں اینجلا تمہیں اس عمارت نے آئرن لیڈی بنایا‘ یہ جب تک مضبوطی سے کھڑی ہے تم بھی کھڑی ہو۔جس دن یہ کم زور ہو جائے گی تم بھی اس دن آئرن لیڈی نہیں رہو گی‘‘ اینجلا مرکل نے یوسف رضا گیلانی کو مشورہ دیا تھا ’’ آپ اگر مضبوط ہونا چاہتے ہیں تو آپ اپنی پارلیمنٹ کو مضبوط کریں‘ آپ کو دنیا کی کوئی طاقت دبا نہیں سکے گی‘‘ ہمیں یہ بات یوسف رضا گیلانی نے واپسی کے سفر کے دوران بتائی تھی‘ اینجلا مرکل ستمبر 2021میں ریٹائر ہو جائے گی‘ ریٹائرمنٹ کے وقت اس کے کل اثاثے ساڑھے گیارہ ملین یورو ہیں اور یہ اس رقم میں
برلن میں ڈھنگ کا کوئی مکان تک نہیں خرید سکتی لیکن یہ اس کے باوجود مطمئن ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ سمجھتی ہے یہ رقم دونوں میاں بیوی کے لیے کافی ہے۔میں نے جب یہ حقائق پڑھنا اور کھوجنا شروع کیے تو میں نے اپنے آپ سے سوال کیا‘ یہ کون لوگ ہیں اور کیا یہ لوگ دوزخ میں چلے جائیں گے اور ہم ہوس کے پجاری اپنے ہی لوگوں کا خون چوسنے کے باوجود جنتی ہوں گے؟ میں نے یہ بھی سوچا‘ رسولؐ ہمارے سادہ تھے اور اللہ نے ایمان داری‘ اخلاص اور ان تھک محنت کا حکم ہمیں دیا تھا لیکن محنتی یہ لوگ نکلے‘ اخلاص کے پیکر بھی یہ ہیں‘ ایمان دار بھی یہ اتنے ہیں کہ یہ حکمران ہونے کے باوجود کپڑے دھونے کی مشین بھی ہمسایوں سے پوچھ کر چلاتے ہیں اور یہ 15سال کے اقتدار کے بعد خود ہی کرسی سے اٹھ بھی جاتے ہیں۔عوام کو انھیں اتارنے کے لیے التحریر اسکوائر گرم کرنا پڑتا ہے اور نہ مک گیا تیرا شو مشرف کے نعرے لگانا پڑتے ہیں‘ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ لوگ عالم اسلام کی کھوئی ہوئی میراث ہیں‘ رسولؐ ہمارے تھے‘ قرآن ہمارا تھا اور خلفاء راشدین بھی ہمارے تھے لیکن افسوس ان پر عمل ان لوگوں نے کیا۔لہٰذا آج ہم پوری دنیا سے جوتے کھا رہے ہیں‘ ہم دنیا کے مہنگے ترین کپڑے پہن کر جہازوں میں بیٹھ کر اس اینجلا مرکل کے سامنے امداد کا کشکول پھیلا رہے ہیں جس نے پانچ یورو کے 20سال پرانے کپڑے پہنے ہوتے ہیں اور جو گھر سے صبح کے برتن دھوکر آفس آتی ہے اور شام کو اپنے کپڑے خود استری کرتی ہے اور اس کا خاوند بیوی کی 15سالہ چانسلری کے باوجود پروفیسر کا پروفیسر رہتا ہے‘ وہ یونیورسٹی کاوائس چانسلر بھی نہیں بنتا اور یہ ہے وہ فرق جس نے آج ہمیں بھکاری اور اینجلا مرکل جیسی لیڈروں کے ملکوں کو سخی بنا دیا‘ یہ ان داتا ہو گئے اور ہم اقوام عالم کے سامنے جھولی پھیلا کر کھڑے ہیں لیکن ہمیں اس کے باوجود شرم نہیں آتی۔

Leave a Comment