حکومت کے پاس آخری سال؟ ورنہ لوگ کیا کرنے پر مجبور ہونگے؟ عمران خان کے مستقبل کا سیاسی نقشہ کھینچ دیا گیا

Advertisements

لاہور: (ویب ڈیسک) امتیاز رفیع بٹ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ”2021 متعدد پہلوؤں سے انقلابی، ہنگامہ خیز اور تاریخی سال رہا۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں ایسے واقعات رونما ہوئے جو کئی دہائیوں تک انسانیت اور کرہِ ارض کی تقدیر پر اثر انداز ہوتے رہیں گے۔ 2021 امید، مایوسی، خوف، موت ، زندگی، اندھیرے اور روشنی کے مابین سفر کرتا رہا۔
2021 نے بہتری اور کامیابی کی نئی راہیں دکھائیں اگر کچھ شعبوں میں ناکامی دیکھنا پڑی تو وہ بھی بوجوہ تھی۔بین الاقوامی سطح پر سال کا آغاز دو اہم واقعات کوروناوبائی مرض کے عروج اور امریکی صدارتی انتخابات سے ہوا۔ وبائی امراض سے نمٹنے میں ناکامی اور بڑی تعداد میں ہونے والی اموات نے ٹرمپ انتظامیہ کے زوال میں اہم کردار ادا کیا۔حتمی نتائج آنے پر ٹرمپ کے حامیوں نے وائٹ ہاؤس پر دھاوا بول دیا ۔پوری دنیا نے دیکھا، مغرب کی مضبوط ترین جمہوریت سفید فام بالادست غنڈوں کے ہاتھوں یرغمال بن گئی۔ جبکہ امریکہ، یورپ اور برطانیہ میں صحت کے نظام بری طرح ناکام ثابت ہو ئے۔ ہزاروں اموات اور متاثرین کی بہت بڑی تعداد نے اسپتالوں کی استعداد کو بھنبھوڑ کے رکھ دیا۔ یہ سب ویکسین متعارف کرائے جانے کی خبروں کے دوران ہو رہا تھا۔ 2021 پوری دنیا میں مختلف طرح کے چیلنجز کا سامنا کرتے گزرا۔ترقی پذیر اور غریب ممالک اپنی استعداد کے مطابق منظم انداز میں وبائی مرض سے نبرد آزما رہے۔ ایک اور واقعہ جس نے دنیا کو چونکا دیا وہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلااور طالبان کا اقتدار پر قبضہ تھا۔ 20سال کی جنگ کے بعد امریکہ، نیٹو اور اس کے اتحادیوں نے طالبان کی جگہ مضبوط طالبان کو لا کھڑا کیا۔ افغان جنگ میں مغربی دنیا کو 2021میں انتہائی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔اس حوالے سے پاکستان نے ٹھوس موقف اختیار کیا۔ کرزئی اور اشرف غنی سے تعلقات کو مضبوط کرنے کی بھارتی کوششوں کو ناکام بنا ئے رکھا۔ افغان کٹھ پتلی حکومت پینٹاگون کا اصل فریب ثابت ہوئی۔ بعد ازاں امریکی جرنیلوں کو کابل سے ناکامی اور غلط اندازوں کے باعث نکلنے کی وضاحت کرتے ہوئے طرح طرح کے جواز گھڑنا پڑے۔ دنیا نے دیکھا کہ کابل سے بچ نکلنے کے خواہاں کئی لوگ امریکی جیٹ سے گر کر ہلاک ہوئے۔یہ انخلا نام نہاد’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘کے تمام امریکی اتحادیوں کا منہ چِڑاتا رہے گا۔ مغربی اتحادیوں اور امریکی افواج کا چھوڑا گیا تمام ساز و سامان طالبان کے ’’کام ‘‘آیا۔ پاکستان نے اس حوالے سے فعال کردار ادا کیا اور طالبان کوڈائیلاگ میں شامل کر کے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کو فروغ دیا۔
2020 سے معطل ہونے والی سپلائی لائنیں دوبارہ متحرک ہوئیں۔ سلیکون اور دھاتی خام مال کی قلت اور قیمتوں میں کمی نے عدم استحکام پیدا کیا۔ ایندھن اور قدرتی گیس کی سپلائی چین میں خلل پڑا۔لندن جیسے شہروں میں پٹرول کی شدید قلت دیکھنے میں آئی۔ قیمتیں مستحکم ہوئیں لیکن پھر مناسب شرح سے متجاوز ہوتی چلی گئیں۔ اوپیک ممالک کے ہنگامی اجلاسوں نے منڈیوں کو مستحکم کرنے کے لیے سپلائی میں اضافہ کرکے معاملہ سنبھالنے کی کوشش کی۔ دنیا کو ادراک ہوا کہ متبادل توانائی کے ذرائع تاحال خوش خیالی سے زیادہ کچھ نہیں ۔ چین نے ایشیا اور افریقہ میں اپنی سرمایہ کاری کو بڑھایا۔ اس نے تائیوان اور ہانگ کانگ میں پوزیشن مضبوط کی۔ چین کے خلاف کام کرنے والے غیر ریاستی عناصر کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کیا گیا ،بین الاقوامی امور میں چین کا موقف اقوام متحدہ میں مؤثر رہا۔ 2021 کے اختتامی دنوں میں اقوام متحدہ میں چین کے نمائندے نے افغانستان اور عراق میں کیے گئے جنگی جرائم کیلئے امریکہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ 2021کا ایک اور سنگ میل گلاسگو میں موسمیاتی تبدیلی پر cop26کانفرنس تھی۔ 4000 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ پر دنیا بھر کے اہم سائنس دانوں نے دستخط کیے اور اس پر مہر لگا کر، موسمیاتی مسائل کے حوالے سے حکومتوں کو ریڈ الرٹ جاری اور فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ۔ cop26 کانفرنس نے نشاندہی کی کہ موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے میں غفلت سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوسکتا ہے۔ کانفرنس میں چین اور روس نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ امریکی ایک بار پھر پوزیشن سے پیچھے دھکیل دئیے گئے۔پاکستان میں اچھے اور برے واقعات رونما ہوتے رہے۔ عمران خان کو معیشت کی مایوس کن
صورتحال ورثے میں ملی جنہوں نے پاکستان کو دیوالیہ پن سے نکالنے کی پوری کوشش کی۔ ان کی نمایاں کامیابیوں میں ٹیکسیشن میں اصلاحات اور کاروبار کے لیے سازگار ماحول کی حوصلہ افزائی تھی۔ عمران خان نے سعودیوں سے تیل کی موخر ادائیگیوں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے سرمایہ کاری کے حصول کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ ترسیلات زر اب تک کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ یہ سب کچھ پچھلی حکومتوں سے معیشت کی بدترین حالت وراثت میں ملنے کے باوجود کیا گیا۔ وبائی امراض کے پیش نظر عمران خان اور این سی او سی کی ٹھوس پالیسیوں کی وجہ سے ملک بڑی تباہی سے بچنے میں کامیاب رہا۔ بیجنگ کی طرف سے آنے والی امداد پاکستان چین دوستی کا مظہر ثابت ہوئی۔ اسی جذبے کے تحت پاکستان cpec اور obor کے تحت اپنے اہم منصوبوں پر پیشرفت کرتا رہا۔ آئی ایم ایف پروگرام پی ٹی آئی حکومت کے مالیاتی پہلوئوں پر حاوی ہے ، عام آدمی پر ٹیکسوں کا بوجھ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔قومی صحت کارڈ اسکیم، خواتین کے لیے قانون سازی اور ملک میں تعلیمی ڈھانچے کی اوور ہالنگ کے حوالے سے کچھ کارنامے سامنے آئے لیکن ’’نیا پاکستان‘‘ کا وژن مذاق بن کر رہ گیا۔ 2022 وہ سال ہے جو حکومت کے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا آخری موقع ہے ورنہ لوگ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ نئے کی بجائے پرانا پاکستان ہی بہتر تھا۔

Leave a Comment