نواز شریف اگر پاکستان آئے تو ان کےساتھ کیا ہو گا اور اس کا سب سے بڑا فائدہ کس کو ہونے والا ہے ؟ نامور صحافی حمید اللہ بھٹی نے ساری بات کھول کر رکھ دی

Advertisements

لاہور (ویب ڈیسک) نامور صحافی حمید اللہ بھٹی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔وطنِ عزیز کی سیاست کیا رُخ اختیار کرے گی؟ وثوق سے کچھ کہنا ممکن نہیں آجکل ملک میں نواز شریف کے آنے کی بحث زوروں پر ہے سیاستدان، صحافی اور حکومتی حلقے اندازے لگا نے میں مصروف ہیں وجہ یہ ہے کہ تاحیات نااہلی کے باوجود اُن کا
ووٹ بینک برقرار ہے جو جیت کی سیاست کرنے والے سیاستدانوں کے لیے نہایت پُرکشش ہے کیونکہ جیت کی سیاست کرنے والے انتخابی میدان میں اُترنے سے قبل کسی مقبول جماعت کا ٹکٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں پنجاب کے کئی ضمنی انتخابات جیتنے سے اِس خیال کو تقویت ملی ہے کہ موجودہ حکمران سے زیادہ سابق حکمران جماعت کا ٹکٹ بہتر ہے انتخابات سے قبل نواز شریف اگر ملک واپس نہیں آتے تو سابق حکمران جماعت ن لیگ کی انتخابی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے وجہ یہ ہے کہ جیت کی سیاست پریقین رکھنے والے سیاستدان کیونکہ کامیابی کے بعد حکومتی منصب کی بھی تمنا کرتے ہیں لیکن یہ تمنا مریم نواز کی قیادت میں پوری نہیں ہو سکتی اِس لیے موجودہ حکمران جماعت کا ٹکٹ جیت کی سیاست پر یقین رکھنے والوںکے لیے اہم ہوگا اگر نواز شریف ملک میں آجاتے ہیں جس کاکچھ امکان ہے تو چاہے وہ انتخابی جلسوں میں شریک نہ ہوں بلکہ پسِ زنداں ہی ہوں تو مستقبل کی سیاست میں جلد کچھ بڑاہونے کے دعوے پر یقین کیا جا سکتا ہے کیونکہ بھلے حکومتی منصب نہ ملے لیکن جیت کی سیاست پر یقین رکھنے والوں کو مقبول جماعت کا ٹکٹ راغب کر سکتا ہے جس سے پنجاب کی حد تک کچھ بڑاہونے کا امکان بڑھ سکتا ہے۔لندن سے واپس لوٹنے والے ایاز صادق نے جب سے جلد کچھ بڑا ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ہوگا وہ حیران کن ہوگاحکومت بے سکون ہے خیرسیاستدان کا اپنے کارکنوں کو ایسی طفل تسلیاں دینا نئی بات نہیں
مگر وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف سے نواز شریف کی نااہلی ختم کرانے کے راستے نکالنے کی بات کرنے کچھ بڑا ہونے کے دعوے کو اہم بنا دیا عمران خان نے سزایافتہ مجرموں کو چھوڑنا ہی ہے تو قید خانوں کے دروازے کھول دینے کی بات کرتے ہوئے حیرانگی ظاہر کی اور عوام الناس سے دریافت کیا کہ تین بار ملک کا وزیرِ اعظم رہنے والا ایک سزا یافتہ شخص کیسے چوتھی دفعہ ملک کا وزیرِا عظم بن سکتا ہے؟ ممکن ہے عمران خان نے سابق وزیرِ اعظم کی نااہلی ختم کرانے کا پیغام موجود ہ سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کے اِس بیان سے لیا ہو جس میں انھوں نے کہا کہ کسی عدالت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کو تاحیات نااہل کر ے بقول اُن کے اِس حوالے سے انھوں نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے بات کرلی ہے انھوں نے تاحیات نااہلی پر نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کا بھی عندیہ دیا لیکن یہ عمران خان کو کیا ہو گیا ہے کہ ایک بات سے ہی ہاتھ پائوں پھول گئے ہیں ویسے شاید انھیں معلوم ہو کہ وطنِ عزیز میں کچھ بھی ناممکن نہیں ذوالفقار علی بھٹوکے دورِ حکومت میں نیشنل عوامی پارٹی کو کالعدم قرار دیکر تمام بڑے عہدیداروں کو گرفتار کر لیا گیا جس کی سپریم کورٹ نے بھی تائید وتصدیق کر دی پھر سیاسی حالات تبدیل ہوئے تو گرفتار تما م سیاسی رہنما نہ صرف قید خانوں سے رہا ہوئے بلکہ کچھ تو ضیاالحق کی کابینہ میں وزیر بھی بنے ابھی حال ہی میں توڑ پھوڑ کی بناپر کالعدم ہونے والی ٹی ایل پی کوقومی دھارے میں لانے کی آڑمیں حکومت نے نہ صرف بطور سیاسی جما عت تسلیم کیابلکہ اتحاد بنانے کے لیے سلسلہ
جنبانی بھی شروع کررکھا ہے مگر عمران خان حریف جماعتوں کی قیادت بارے انتہائی سخت رویہ رکھتے ہیں اُن کا سخت رویہ ہی اپوزیشن کو متحد رکھنے کی بڑی وجہ ہے۔موجودہ حکومت ایسی کچھ خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی جسے کچھ بڑا ہونے سے تعبیر کر سکیں مگر کیا واقعی اپوزیشن کچھ بڑا کرنے کی پوزیشن میں ہے؟اگر نواز شریف کی ملک میں آمد کے حوالے سے جواب دیں تو نوازشریف کا فوری طور پر آنا ممکن نہیں حالانکہ برطانیہ میںرہائش کی توسیع بارے دی گئی درخواست مسترد ہونے کے بعداب اپیل زیرِ سماعت ہے جس کے بارے اکثر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اپیل بھی مسترد ہونے کاقوی امکان ہے جس کے بعدملک واپسی کے سواچارہ نہیں دوم یہ کہ نوازشریف کے پاسپورٹ کی مدت جنوری میں ختم ہورہی ہے جس میں توسیع یا نئے کے اجراکا امکان بھی کم ہے اِس صورت میں کسی اور ملک میں جانا بھی محال ہے اسی لیے واپسی کی خبروں میں صداقت نہ ہونے کے باوجودمکمل طورپرجھٹلایا بھی نہیں جا سکتا جہاں تک پی پی اور ن لیگ کی طرف سے ڈیل کا شور ہے آصف زرداری نے یہ کہہ کر کہ فارمولے والے ملک کوموجودہ بھنور سے نکالنے کے لیے اُن سے مدد لینے آئے تھے جس پر انھوں نے پہلے عمران خان کو نکالنے کی شرط رکھی ہے ڈیل کے تاثر کو تقویت دی لیکن عملی طور پر ابھی ایسا کچھ نہیں ویسے یہاں سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان سے سبھی خوش ہیں ؟ظاہرہے نہیں کے سوا کوئی اور جواب ہو ہی نہیں سکتا جس کے ذمہ دار وزیراعظم کے سوا کوئی اور نہیں لیکن ڈیل یا ڈھیل کی باتیں فی الحال بعید از قیاس ہیں۔باخبر ہونے کے دعویدار سلیم صافی نے حال ہی میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اعلان کی صورت میں خبر لگائی ــ: ایک ضروری اعلان سُنیے نواز شریف جنوری میں پاکستان آنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں منصوبے کے مطابق واپسی پر قید میں جائیں گے پھر عدالتوں سے ریلیف اور سابقہ سزائوں کے خاتمے کی اپیلیں ہوں گی انھوں نے ڈی جی نیب لاہور کے تبادلے کو اسی سلسلے کی کڑی قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ نواز شریف بھی سکرپٹ سے مطمئن ہیں اعلان ختم ہوا:مگر دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا یہ اتنا ہی آسان ہے ؟ویسے اعلان کرنے والے صحافی تو آصف زرداری کی اسلام آباد میں ہونے والی ملاقاتوں کو بھی ڈیل کا حصہ کہہ چکے ہیں لیکن کچھ حلقوں کی باتوں کے دوران موجود کڑواہٹ سے ایسے دعوئوں پر یقین کرنے کو دل نہیں مانتا۔

Leave a Comment