مسلمانوں کو آج سے قبل معلوم نہیں ہوگا کہ خانہ کعبہ کی جگہ پہلے کیا تھا اور مکہ مکرمہ کیسے وجود میں آیا؟حیران کن تفصیلات

Advertisements

اوند قدوس کے حکم سے آپ نے ایسا کیا ہے؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے ہاجرہ! میں نے جو کچھ کیا ہے وہ اللہ تعالی کے حکم سے کیا ہے۔یہ سن کر حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا کہ اب آپ جائیے، مجھے یقین کامل اور پورا پورا اطمینان ہے کہ خداوند کریم مجھ کو اور میرے بچے کو ضائع نہیں فرمائےگا۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام ۔۔۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک لمبی دعا مانگی اور وہاں سے ملک شام چلے آئے۔چند دنوں میں کھجوریں اور پانی ختم ہو جانے پر حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا پر بھوک اور پیاس کا غلبہ ہوا اور ان کے سینے میں دودھ خشک ہوگیا اور بچہ بھوک و پیاس سے تڑپنے لگا۔حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے پانی کی تلاش و جستجو میں سات چکر صفا مروہ کی دونوں پہاڑیوں کے لگائے مگر پانی کا کوئی سراغ دور تک نہیں ملا۔یہاں تک کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام پیاس کی شدت سے ایڑیاں پٹک پٹک کر رو رہے تھے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کی ایڑیوں کے پاس زمین پر اپنا پیر مار کر ایک چشمہ جاری کر دیا۔اور اس پانی میں دودھ کی خاصیت تھی کی غذا اور پانی دونوں کا کام کرتا تھا۔چنانچہ یہی زمزم کا پانی پی پی کر حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام زندہ رہے۔یہاں تک کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام جوان ہو گئے اور شکار کرنے لگے تو شکار کے گوشت اور زمزم کے پانی پر گزر بسر ہونے لگی۔ مکہ آباد ہونے لگا۔۔۔ پھر قبیلہ جرہم کچھ لوگ اپنی بکریوں کو
چراتے ہوئے اس میدان میں آئے اور پانی کا چشمہ دیکھ کر حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اجازت سے یہاں آباد ہو گئے اور اس قبیلے کی ایک لڑکی سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شادی بھی ہوگئی۔اور رفتہ رفتہ یہاں ایک آبادی ہو گئی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خداوند قدوس کا یہ حکم ہوا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کریں۔ چنانچہ آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مدد سے خانہ کعبہ کو تعمیر فرمایا۔اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد اور باشندگان مکہ مکرمہ کے لئے جو ایک طویل دعا مانگی ۔قران مجید کی مختلف سورتوں میں مذکور ہے۔چنانچہ سورہ ابراہیم میں آپ کی اس دعا کا کچھ حصہ اس طرح مذکور ہے ترجمہ ترجمہ اے میرے رب میں نے اپنی کچھ اولاد ایک نالے میں بسائی جس میں کھیتی نہیں ہوتی تیرے حرمت والے گھر کے پاس اے ہمارے رب اس لیے کہ وہ نماز قائم رکھیں تو لوگوں کے کچھ دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں کچھ پھل کھانے کو دے شاید وہ احسان مانیں۔یہ مکہ مکرمہ کی آبادی کی ابتدائی تاریخ ہے جو قرآن مجید سے ثابت ہوئی ہے۔ دعا ابراہیم کا اثر۔۔۔:اس دعا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
خداوند سے دو چیزیں طلب کی ایک تو یہ کہ کچھ لوگوں کے دل اولاد ابراہیم علیہ السلام کی طرف مائل ہوں اور دوسرے ان لوگوں کو پھلوں کی روزی کھانے کو ملے آپ کی یہ دعائیں مقبول ہوئی۔چنانچہ اس طرح لوگوں کے دل اہل مکہ کی طرف مائل ہوئے کہ آج کروڑ ہا کروڑ انسان مکہ مکرمہ کی زیارت کے لئے تڑپ رہے ہیں اور ہر دور میں طرح طرح کے مسلمان خشکی اور سمندر اور ہوائی راستوں سے مکہ مکرمہ جاتے ہیں۔قیامت تک جاتے رہیں گے اور اہل مکہ کی روزی میں پھلوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ باوجود یکہ شہر مکہ اور اس کے قریب و جوار میں کہیں نہ کوئی کھیتی ہے نہ کوئی باغ باغیچہ ہے۔مگر مکہ کرمہ کی منڈیوں اور بازاروں میں اس کثرت سے قسم قسم کے میوے اور پھل ملتے ہیں کہ فرط تعجب سے دیکھنے والوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے” طائف” کی زمین میں ہر قسم کی پھلوں کی پیداوار کی صلاحیت پیدا فرما دی ہے کہ وہاں سے قسم قسم کے میوے اور پھل اور طرح طرح کی سبزیاں اور ترکاریاں مکہ معظمہ میں آتی رہتی ہیں اور اس کے علاوہ مصر و عراق بلکہ یورپ کے ممالک سے میوے اور
پھل بکثرت مکہ مکرمہ آیا کرتے ہیں۔یہ سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کی برکت کے اثرات و ثمرات ہیں جو بلاشبہ دنیا کے عجائبات میں سے ہیں۔اس کے بعد آپ نے یہ دعا مانگی جس میں آپ نے اپنی اولاد کے علاوہ تمام مومنین کے لئے بھی دعا مانگی ترجمہاے میرے رب مجھے نماز کا قائم کرنے والا رکھ اور کچھ میری اولاد کو بھی اے ہمارے رب اور میری دعا سن لے اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہوگا۔ درس ہدایت۔۔۔ ابراہیم علیہ السلام اپنے رب تعالیٰ کے بہت ہی اطاعت گزار اور فرماں بردار تھے کہ وہ بچہ جس کو بڑی دعاوں کے بعد بڑھاپے میں پایا تھا جو آپ کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور تھا، فطری طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کبھی اپنے سے جدا نہیں کرسکتے تھے مگر جب اللہ تعالی کے حکم ہوگیا کہ ابراہیم تم اپنے پیارے فرزند اور اس کی ماں کو اپنے گھر سے نکال کر وادی بطحا میں اس سنسان جگہ پر لے جا کر چھوڑ آؤ جہاں سر چھپانے کو درخت کا پتہ پیاس بجھانے کو پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے،نہ وہاں کوئی یار و مددگار ہے نہ کوئی مونس و غم
خوار ہے۔دوسرا کوئی انسان ہوتا تو شاید اس کے تصور ہی سے اس کے سینے میں دل دھڑکنے لگتا بلکہ شدت غم سے دل پھٹ جاتا۔حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ اصلوٰۃ و السلام خدا کا یہ حکم سن کر نہ فکر مند ہوئے نہ ایک لمحے کیلئے سوچ بچار میں پڑے نہ رنج و غم سے نڈھال ہوئے بلکہ فوراً ہی خدا کا حکم بجا لانے کے لئے بیوی اور بچے کو لے کر ملک شام سے سرزمین مکہ میں چلے گئے اور وہاں بیوی بچے کو چھوڑ کر ملک شام چلے آئے۔اللہ اکبر اس جذبہ اطاعت شعاری اور جوش فرماں برداری پر ہماری جان قربان اس معاملے میں میری ذاتی رائے ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی اولاد کے لیے نہایت ہی محبت بھرے انداز میں ان کی مقبولیت اور رزق کے لئے جو دعائیں مانگیں۔اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی اولاد سے محبت کرنا اور ان کے لیے دعائیں مانگنا یہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا طریقہ ہے جس پر ہم سب مسلمانوں کو عمل کرنا ہماری صلاح و فلاح دارین کا ذریعہ ہے۔

Leave a Comment