عمران خان کے بعد اگلی آپشن کون ؟ 2023 کےانتخابات کے حوالے سے ناقابل یقین پیشگوئی کر دی گئی

Advertisements

لاہور(ویب ڈیسک)آصف علی زرداری کا یہ بیان کہ ’’ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں انہیں مدد کرنے کیلئے کہا گیا ہے، تاہم انہوں نے بات چیت کو موجودہ حکومت کی رخصتی سے مشروط کر دیا ہے‘‘ ،حیرانی کا سبب بنا ہے۔ کسی قوت کا نام لئے بغیر انہوں نے کہاکہ ’’پاکستان بنانا آسان ہے لیکن نامور کالم نگار رؤف حسن اپنے
ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ نہ تو ملک بنا سکے، نہ کسی کی بات سنی اور سمجھی لیکن وقت آئے گا جب انہیں ہماری باتوں کو سننا ، سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ہوگا‘‘۔سازشی عناصر کے خیال میں عوام ایسی پرفریب داستانیں سننے کے لئے پہلے سے تیار بیٹھے ہیں۔ آصف زرداری نے جب چند برس قبل فوجی قیادت کی مدتِ ملازمت مختصر جبکہ سیاستدانوں کے طویل کیریئر کی دھمکی دے کر اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی تو دو سال بیرون ملک گزارنا مناسب سمجھاتھا، اس وقت چونکہان کیخلاف مختلف عدالتوں میں مقدمات زیرسماعت ہیں، چنانچہ وہ ملک چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ کوئی نام نہ لینے کی وجہ بھی یہی ہو سکتی ہے یا پھر موصوف اپنی تیزی سے ڈوبتی سیاسی ساکھ کو بچانے کیلئے جارحانہ رویہ اپنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ جانناضروری ہے کہ ان کا اشارہ کن لوگوں کی طرف ہے؟ زرداری نے جب آخری بار یہ کارڈ کھیلا تو انہوں نے ادارے کا نام بھی لیا لیکن اس بار یہ کھیل رازداری کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ اس بیان کی سچائی جاننے کیلئے پیپلزپارٹی کی سیاسی ساکھ اور اس کے مستقبل کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی اکثریت انہی انتخابات کی وجہ سے وجود میں آئی جسے ان کے لیڈر دھاندلی زدہ قرار دیتے ہیں۔ صوبائی حکومت اپنی کرپشن اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکامی کی وجہ سے شدید دبائو کا شکار ہے۔
اپنے 3سالہ دور اقتدار میں پیپلزپارٹی غریب آدمی کے دکھوں کا مداوہ کرنے کی بجائے اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف رہی لیکن پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے والوں پر تنقید کا کوئی اثر نہ ہوااور وہ اپنے مذموم مقاصد اور عوام دشمن پالیسیوں کو بلاروک ٹوک جاری رکھے ہوئے ہے۔ پیپلز پارٹی کا پی ڈی ایم کی کشتی سے اترنے کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ کبھی اگر تبدیلی کا منظرنامہ سامنے آئے تو وہ خود کو ایک آپشن کے طورپر پیش کر سکے۔ یہ انتہائی شاطرانہ چال تھی کیونکہ نام نہاد تحریک میں شامل سرگرم جماعت مسلم لیگ (ن) نے جارحانہ پالیسی اپنائی ہوئی تھی۔ یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہے کہ جب سے شریف خاندان کو اقتدار سے الگ کیا گیا ہے، میاں نواز شریف اور مریم نواز نے قومی اداروں پر تنقید کا ایک بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ چھوٹے بھائی شہباز شریف نے ہمیشہ مختلف کارڈ کھیلے ہیں اور باپ بیٹی کی سیاسی چالوں سے بھی خود کو دور رکھا اورخود کو اپنے بڑے بھائی کے متبادل کے طورپر متعارف کروانے میں کافی حد تک کامیاب رہے۔یہ دونوں جماعتیں لسانیت کے کارڈ کھیلنے کی ماہر ہیں۔ پیپلزپارٹی سندھ کارڈ جبکہ شریف خاندان پنجاب کارڈ کھیلتا رہاہے۔ دونوں جماعتیں ریاست کے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے ذاتی سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کریں گی۔تو پھر ایسا کیوں کہ آصف علی زرداری جن کی سیاسی زندگی سب کے سامنے ہے، یہ دعویٰ کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ملک کے موجودہ حالات
میں ان سے مدد کیلئے رابطہ کیا گیا؟ اور ایسا کیوں کہ ان کی اپنی اور ساتھیوں کی کرپشن کے چرچوں کے باوجود انہیں (زرداری) ملک کا نجات دہندہ سمجھا جا رہا ہے؟ ان کی غلط فہمی کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اس شخصیت کا نام نہیں لیا جس نے ان سے رابطہ کیا؟ یہ بیان ان کی بڑھتی ہوئی مایوسی کا عکاس ہے ۔یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ بے انتہا کرپشن کے بعد اب سندھ بھی ان کے ہاتھوں سےنکلتا نظر آ رہا ہے۔اس بیان بازی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب سے وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالا اور ملک کو درست سمت میں گامزن کرنے کی کوشش کی ہے ،تب سے ان کیخلاف کسی نہ کسی حوالے سے مہم چل رہی ہے ۔ موجودہ حکومت کا بنیادی مقصد ملک و قوم کو ایسے شرپسند مافیا سے بچانا ہے، جنہوں نے کئی دہائیوں سے اپنے غلط طرز حکمرانی کے باعث اس سے کھلواڑ کیا ہے۔ کیا ایسے لوگوں کو ملک کا نجات دہندہ سمجھا جا سکتا ہے یا یہ وہی لوگ ہیں جو ملک کو ایک بار پھر بحرانوں کی دلدل میں دھکیل دیں گے؟یہ سیدھی سادی، سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ جب چند ایسے سیاسی سوداگروں کو رتی بھر بھی حمایت مل جائے تو وہ اپنی تجوریاں محفوظ بنانے کیلئے ملک پر ایک بار پھر کرپشن کا جھنڈا گاڑنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھنے والی کرپٹ اشرافیہ ،بیوروکریسی ، عدلیہ اور میڈیا سے وابستہ افراد سمیت ہر وہ فرد جو اقتدار کے مزے لوٹ چکا ہے ،بدعنوانی کی اس کہانی کو ختم نہیں کرنا چاہتا۔ ان طبقوں کے باہمی مفادات نے انہیں مضبوطی سے آپس میں جوڑ رکھا ہے ۔جہاں تک حکومت کا تعلق ہے وہ بتدریج کووڈ جیسی موذی وبا کے مہلک اثرات سے نکل رہی ہے جس نے پاکستان سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مختلف چیلنجز اور مافیاز کی طرف سے مسلسل سازشوں کے باوجود وزیراعظم عمران خان کرپٹ اشرافیہ کا مقابلہ کرنے اور آئین وقانون کی بالادستی قائم کرنے کے اپنے بنیادی ایجنڈے پر ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں ۔آصف علی زرداری کا بیان ان کی تیزی سے گرتی ہوئی پولیٹکل ساکھ سے جڑاہوا ہے جس کا انجام بھی ماضی میں لگائی گئی اس طرح کی بولیوں سے مختلف نہیں ہوگا۔

Leave a Comment