بینظیر بھٹو نے جب پہلی بار انہیں پیپلز پارٹی کا حصہ بننے اور سیاست میں آنے کی دعوت دی تو شیری رحمٰن نے کیا جواب دیا تھا ؟

Advertisements

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار مظہر عباس اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔صحافت اور سیاست میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایوانِ اقتدار کی راہداریوں سے قریب ہونے، رابطہ رکھنے اور اُس کا حصہ بن جانے میں باریک سا فاصلہ ہے۔ کچھ دوستوں نے یہ فاصلہ برقرار رکھا اور چند ایک نے اِس کو عبور کرلیا۔ اِن ایوانوں
میں کسی ’’خبر‘‘ کی تلاش میں جانا اور پھر وہیں کا ہو جانے میں بہرحال فرق ہوتاہے۔ کچھ وزیر بن گئے کچھ مشیر اور چند ایک نے انتظامی عہدے لے لئے اور پھر صحافت میں واپس آگئے۔ نہ کوئی حساب نہ کتاب۔محترمہ شیری رحمٰن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ بہت بولڈ ایڈیٹر تھیں۔ یہ 1992ء کی بات ہے۔ جام صادق مرحوم کا دور تھا۔ وہ ہیرالڈ رسالے کی مدیر تھیں۔ ادریس بختیار مرحوم اور میں نے ایک ’’بدنامِ زمانہ سی آئی اے سینٹر کے عقوبت خانہ پر‘‘کے عنوان پرکوراسٹوری کی، رسالے پر مقدمہ قائم ہوگیا۔ FIRکٹ گئی۔ سب نے فیصلہ کیا کہ مقدمے کا سامنا کریں گے۔ پولیس والے آفس آگئے تو ہم وہیں موجود تھے۔ بعد میں سب کورٹ گئے۔ اتنے صحافی تھے کہ جج بھی پریشان ہو گیا۔ حکومت نے کیس واپس لے لیا۔شیری رحمٰن کے بقول صحافت چھوڑ کر سیاست میں آنے کا فیصلہ آسان نہیں تھا۔ ’’1998ء میں بینظیر بھٹو نے جب پہلی بار آفر کی تو میں نے کہا کہ کیا آپ کی سیاست اور پارٹی میری تنقید برداشت کرلے گی، بی بی نے کہا مجھے ایسے ہی بولڈ لوگوں کی ضرورت ہے۔ میگزین سے استعفیٰ دیا اور پی پی پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ 2002 میں پہلی بار خواتین کی مخصوص نشست پر ایم این اے منتخب ہوئیں اور اب سینیٹر ہیں۔ ایک بار وزیر اطلاعات بھی رہیں حالانکہ احمد علی خان صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اگر کسی صحافی کو سیاست یا حکومت میں جانے کا شوق ہے تو کبھی یہ وزارت قبول نہیں کرنی چاہئے کیونکہ عین ممکن ہے کچھ قوتیں آپ سے اپنی برادری اور میڈیا کے خلاف کام لینا چاہیں۔ شیری نے بہرحال وزیر بن کر پیمرا سے صدر پر ہونے والی تنقید پر پابندی کی وہ شق نکلوائی جوپرویز مشرف نے 2007میں شامل کروائی تھی۔

Leave a Comment