اوریا مقبول جان

Advertisements

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔تین مارچ 2021ء کی شام بھی عجیب تھی۔ حفیظ شیخ شطرنج کی بساط کا وہ مہرہ تھا جسے اس کھیل کے ماہر کھلاڑی آصف زرداری نے 2006ء میں پیپلز پارٹی کی جانب سے سینٹ میں پہنچایا، پھر 2012ء میں دوبارہ اسے سینٹ کی بساط پر قائم رکھا، اور آج اسے
اپنی مخصوص ’’مہارت‘‘ کے بل بوتے پر ’’شہہ مات‘‘دے دی۔ شطرنج کا یہ کھیل اگست 2019ء میں بھی کھیلا گیا جب چودہ ’’معزز‘‘ جمہوری رہنماؤں (سینیٹرز) نے ’’ہر شخص کی ایک قیمت‘‘ والے محاورے کی سچائی کو ثابت کرتے ہوئے صادق سنجرانی کو منتخب کیاتھا اور آج بھی ایک درجن کے قریب ’’جمہوری شخصیتیں‘‘ بازارِ حصص میں تولی گئیں۔ اس شام کا ہیرو آصف زرداری تھا اور ’’ضمیر کی آواز پر لبیک‘‘ کہنے والے وہ درجن بھر ممبرانِ اسمبلی تھے جن کا ضمیر کیاصرف اور صرف حفیظ شیخ کے خلاف جاگا اور پھر یہی ضمیر صرف چند لمحوں کے بعد ہی مردہ ہو گیا اور انہوں نے پی ٹی آئی کی فوزیہ ارشد کے نام کے سامنے ’’ٹک‘‘ لگا دی۔ شورش کاشمیری کی مشہور کتاب ’’بازارِ حسن‘‘ کا ایک فقرہ ہے کہ ’’جب طوائف بکتی ہے تو ایک جسم بکتا ہے، لیکن جب قلم بکتا ہے تو پوری قوم بکتی ہے‘‘۔ یہ کتاب آج سے ستر سال پہلے لکھی گئی تھی اب اس محاورے میں قلم کے ساتھ ساتھ کیمرہ کو بھی شامل کر لینا چاہیے۔ کارپوریٹ معاشرے کی علامت سرمایہ دار راک فیلر نے کہا تھا ’’کوئی شخص کارپوریٹ سرمائے اور کارپوریٹ میڈیاکی مدد کے بغیر امریکی صدر نہیں بن سکتا‘‘۔۔ ’’انسان اور آدمی‘‘فلم میں اداکار محمد علی نے عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر ایک ڈائیلاگ بولا تھا، ’’جج صاحب! طوائف کے کوٹھے سے کوٹھی تک آتے آتے یہ سب کچھ فن اور آرٹ کا درجہ کیسے حاصل کر لیتاہے‘‘ کاش محمد علی زندہ ہوتا اور آج جج صاحب اسے ضرور یہ جواب دیتے کہ کوٹھے کی ذلت سے کوٹھی تک کی عزت تک کا سفر میڈیا کے کندھوں پر سوار ہو کر کیا جاتا ہے۔

Leave a Comment