محمد بن سلمان کی تبدیلی الٹی پڑ گئی ، سعودی عرب میں میوزک کنسرٹ میں لڑکیوں کیساتھ کیا کیا شرمناک حرکتیں ہو تی رہیں؟

Advertisements

بی بی سی کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ کے سب سے بڑے میوزک فیسٹیولز میں سے ایک سعودی عرب میں ہو رہا ہے۔تقریب کے منتظمین نے ریاض کے گرد و نواح میں ہونے والے اس ایونٹ کے دوران خواتین کے ساتھ چھیڑ خانی اور بدتمیزی روکنے کے لیے اضافی اقدامات کا وعدہ کیا ہے۔سعودی عرب میں اب بڑے
پیمانے پر تفریحی تقاریب اکثر دیکھنے میں آتی ہیں۔ مگر مقامی اور غیر ملکی خواتین کی جانب سے ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ انھیں یہاں بدتمیزی اور چھیڑ خانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کے پاس کچھ واقعات کے شواہد بھی ہیں۔ان تقاریب کے بعض مناظر اب بھی غیر معمولی لگتے ہیں۔ ایسا ملک جہاں چند سال قبل تک عوامی مقامات پر موسیقی متنازع تھی یہاں اب رات بھر بلند آواز میں میوزک فیسٹیول ہوتا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد اس میں شرکت کرتی ہے۔ ایم ڈی ایل بیسٹ ساؤنڈ سٹرام نامی اس تقریب میں چار روز تک لاکھوں کی تعداد میں لوگ دنیا کے معروف ڈی جیز کو دیکھنے آئے۔اس تقریب میں مرد اور خواتین ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل سکتے تھے۔ ماضی کے سعودی عرب میں ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔دنیا کے مشہور پرفارمرز کے لیے سعودی عرب آنے کا فیصلہ آسان نہیں تھا اور انھوں نے ادھر آنے سے پہلے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ بھی دیکھا ہوگا۔ سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب آنے والے پرفارمرز نے جابر حکومت کی مدد کی ہے تاکہ ان کی ساکھ بہتر دکھائی جاسکے۔لیکن پرفارمر وہ واحد افراد نہیں جو ان تقاریب پر جانے سے کتراتے ہیں۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ ریاض اور دیگر علاقوں میں ان بڑی تفریحی تقاریب کے دوران خواتین کے ساتھ چھیڑ خانی کے بے شمار واقعات سامنے آئے ہیں۔ گذشتہ برسوں کے دوران ایسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں مرد خواتین کو چھو رہے ہیں یا دوسرے طریقوں تنگ کر رہے ہیں۔اس دوران ایم ڈی ایل بیسٹ نے ’رسپیکٹ اینڈ ریسٹ‘ نامی مہم شروع کی ہے تاکہ ان تقاریب کے دوران خواتین کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ اس مہم میں ایسے واقعات کی صورت میں کارروائی
کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بعض لوگ، جو گذشتہ ماہ ان تقاریب پر گئے تھے، انھوں نے ان کوششوں کو سراہا ہے۔سنہ 2018 سے سعودی حکام نے چھیڑ خانی کو جُرم قرار دیتے ہوئے بھاری جرمانے اور پانچ سال تک قید کی سزائیں دی ہیں۔مگر کئی سعودی خواتین نے بی بی سی سے رابطہ کر کے بتایا ہے کہ یہ اقدامات ناکافی ہیں۔ انھوں نے اپنا موقف دیتے ہوئے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط رکھی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بڑے انٹرٹینمنٹ ایونٹس کے دوران یا تو انھیں خود چھیڑ خانی کا سامنا کرنا پڑا ہے یا وہ ایسی خواتین کو جانتی ہیں جن سے بدسلوکی کی گئی۔ان کا کہنا ہے کہ آن لائن چھیڑ خانی کی ویڈیوز پر اکثر صارف خواتین کو ہی اس کا قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ جبکہ سعودی قوانین کے مطابق شکایت کی صورت میں مجرم کے ساتھ متاثرہ خاتون کو بھی سزا ملنے کے امکان ہوتے ہیں۔ایک دوسری خاتون کا کہنا تھا کہ حکام صرف اسی صورت میں ان اطلاعات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں جب ان واقعات میں کوئی غیر ملکی فرد متاثر ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر متاثرہ خاتون سعودی شہری ہو تو اس پر کم دھیان دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر متاثرہ خاتون غیر ملکی ہو تو اس پر سخت ردعمل اور سزائیں دی جاتی ہیں۔تیسری خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ مقامی خواتین کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس میں ملوث تھیں یا تقریب پر جانے سے وہ بھی اس کی قصوروار ہیں۔ ’اگر نوجوان خواتین ایسے واقعات کی اطلاع دیتی ہیں تو انھیں اپنے خاندان یا برادری کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

Leave a Comment