سورۃ آل عمران میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی کس کس کامیابی کی نشانیاں موجود ہیں ؟ بڑے کام کی تحریر منظر عام پر آ گئی

Advertisements

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)بدیل شدہ معاشرہ، تبدیل شدہ سیاست واقتصادیات، تبدیل شدہ روایاتِ ملازمت ،تبدیل شدہ قانون وضوابط، تبدیل شدہ ادب وصحافت، تبدیل شدہ آداب تعلق وعزیز داری، تبدیل شدہ تعزیز اسلامی، تبدیل شدہ اخلاقیات تعلق داری و رشتہ داری، تبدیل شدہ یاری ووفاداری ، تبدیل شدہ منصب ومراعات، غرضیکہ
تبدیل شدہ پاکستان میں سابقہ درجنوں وزیران ومشیران رکھنے کے نامور کالم نگار نواز خان میرانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ بجائے اگر صرف اور صرف احکامات الٰہی کی تقلید و تابعت کی جائے، تو قیامت تک کے لیے مسائل مجموعی کا حل اس میں موجود ہے۔ قارئین کرام ، میں سورةآل عمران میں سے چند آیات کا ترجمہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں، آپ دیانت داری سے بتائیں، کیا ہمارے موجودہ وسابقہ مسائل کا حل اس میں موجود نہیں؟ ارشاد الٰہی سے پہلے ” عمران “ کے لفظی معنی ومفہوم سن لیجئے، عمران حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت مریمؑ کے والد محترم کا نام، ابوطالب (عمِ رسول ) کا نام ہے۔ حکومت عمران کے لیے پہلے قوم کو سودن کا مژدہ سنایا گیا پھر ایک سال کی مہلت مانگی گئی، اور اب تو کہتے ہیں حکومت کے ابھی چارسال پڑے ہوئے ہیں، اتنی کیا جلدی ہے، اور اب تو ماشاءاللہ سپہ سالار وطن کا دست شفقت تین سال کے لیے موجود رہے گا، تقاضہ بشریت اور قانون قدرت تو اشرافیہ سمیت ہرکس وناکس کے لیے یکساں کارفرما رہتا ہے، کیونکہ آصف نواز جنجوعہ، ضیاءالحق مرحوم ومغفوراور دیگر شخصیات کا ماضی قوم کے سامنے ہے۔ قارئین اس سورہ کے نزول سے پہلے کے کچھ
واقعات کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے، کہ اس سے آل عمران سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی، جنگ بدر جس کا تذکرہ ہماری موجودہ سیاست میں بھی ہوتا رہا ہے، اہل ایمان کو اس میں فتح حاصل ہوئی تھی، لیکن یہ جنگ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے برابر تھی، کیونکہ اس اولین مسلح مقابلے نے عرب کی ان تمام طاقتوں کو چونکا کر رکھ دیا تھا، جو اس نئی اسلامی تحریک سے عداوت ودشمنی رکھتی تھیں، ہرطرف طوفان کے آثار نمایاں تھے، مسلمانوں پہ قدرے بے اطمینانی کی حالت طاری تھی، اور بظاہر اس طرح محسوس ہوتا تھا، کہ ریاست مدینہ کی یہ چھوٹی سی بستی جس نے اسلام کی خاطر گردوپیش کی ساری دنیا سے لڑائی مول لے لی ہے، صفحہ ہستی سے ہی مٹا دی جائے گی۔ ان حالات کا مدینے کی معاشی حالت پر بھی نہایت برا اثر پڑ رہا تھا، اول تو یہ ایک چھوٹے سے قصبے میں جس کی آبادی چند سوگھروں سے زیادہ نہیں تھی، یکایک مہاجرین کی ایک بڑی طاقت کے آجانے سے معاشی توازن بگڑ چکا تھا، اس پر مزید مصیبت حالت جنگ کے آجانے کی وجہ سے نازل ہوگئی۔ قارئین کرام، ذرا سوچئے کہ پاکستان کے عوام کو ایسی صورت حال کا تجربہ اس وقت نہیں ہوا تھا، کہ جب
جنرل ضیاءالحق شہید کے زمانے میں بالکل ایسے ہی روس کے افغانستان پر چڑھ دوڑنے سے ریاست پاکستان کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا، اور افغانستان سے پاکستان میں ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی کثیرتعداد پاکستان میں آگئی تھی، کہ جن کے اثرات ابھی تک پاکستانی معاشرے پہ موجود ہیں، دراصل ریاست مدینہ کی سیاست وروایات اخوت وایثار کی ایک زریں تاریخ کو دہرایا گیا تھا۔ ہجرت کے بعد رسول پاک نے اطراف مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ جو معاہدے کئے تھے، ان لوگوں نے ان معاہدات کا ذرہ برابر پاس نہیں کیا جنگ بدر کے موقعے پر ان کی ہمدردیاں، جو”اہل کتاب“ تھے، اہل کتاب جو دوسری ساری کتابوں کے ماننے والے، اور تمام کتابوں پہ ایمان رکھتے تھے بلکہ
حضرت عیسیٰ علیہ السلام پہ ایمان نہ رکھنے کا ان کے ہاں کوئی تصور ہی نہ تھا، یہاں تک کہ مسلمان اس وقت تک ”مسلمان“ ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پہ یقین وایقان نہ رکھیں بلکہ اس وقت انہوں نے اہل کتاب کے بجائے مشرکین اور بت پوجنے والوں کے ساتھ تھیں۔ بدر کے بعد تو یہ لوگ کھلم کھلا قریش اور قبائیلان عرب کو مسلمانوں کے خلاف، جوش دلا دلا کے بدرکا بدلہ لینے کے لیے
اکسانے لگے ۔خصوصاً بنی نضیر کے سردار کعب بن اشرف نے اس سلسلے میں اپنی مخالفانہ اندھی عداوت کو کمینے پن تک پہنچا کر اہل مدینہ کے ساتھ ان یہودیوں کی ہمسائیگی اور دوستی کے جو تعلقات صدیوں سے قائم تھے، اس کا بھی لحاظ نہیں کیا، اور رقابت ودشمنی کے لیے اپنے آپ کو غرق کرلیا، اور اسے کمینے پن تک پہنچا دیا۔ آخر کار جب ان کی شرارتیں، اور وعدہ خلافیاں حد برداشت سے بڑھ گئیں۔ قارئین بالکل اسی طرح جیسے موجودہ دور میں کشمیر میں بھارتی مودی سرکار کی مسلمان دشمنی اپنے سارے حقوق ہمسائیگی اور وعدے وعید اور عہدو پیمان توڑ کر اپنے نام کے ساتھ ایشیا کا ہٹلر بننے کا القاب لگواچکی ہے کیا یہ بھی ریاست مدینہ کی یادتازہ نہیں کررہی ؟تب ان کی مکاریاں اور عیاریاں اور وعدوں اورمعاہدوں کو ٹوٹتا دیکھ کر رسول اللہ نے غزوہ بدرکے چند مہینے بعد بنی قنیقاع قبیلے پر، جو ان یہودی قبائل میں سب سے زیادہ شریر لوگ تھے، حملہ کردیا اور ان کو مدینے کے اطراف سے باہر نکال دیا۔ یہ دیکھ کردوسرے یہودی قبائل کی آتش عناد اور زیادہ بھڑک اٹھی، اور انہوں نے مدینے کے ”منافق مسلمانوں“ اور حجازکے کافروں کے ساتھ سازباز کرکے اسلام دشمنی میں
اپنے آپ کو ”بے نقاب“ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی …. اور یہ اندیشہ اور خطرہ بھی ظاہر ہوگیا، کہ یہ کافر حضور پہ بھی حملہ کرنے سے باز نہیں آئیں گے، اس لیے صحابہ کرام ؓ بالعموم ہتھیار بند ہوکر سوتے تھے شب خون کے ڈرسے راتوں کو پہرے دیئے جاتے تھے، حضور اس زمانے اگر تھوڑی دیر کے لیے بھی کہیں ان کی نظروں سے دور ہو جاتے، تو صحابہ کرامؓ ڈھونڈتے ڈھونڈتے آپ کے گھرتک پہنچ جاتے۔ بدرکی شکست فاش کے بعد کافروں کے دلوں میں آپ ہی سے انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی، جس پر مزید تیل یہودیوں نے چھڑکا، قارئین اس کی ایک جھلک آپ نے کشمیر میں مودی کی حالیہ کشمیر کو بھارت کا ”آئینی حصہ“ بنانے کی سازش میں اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کی آشیرباد اور فلسطین کی بستیوں کو اسرائیل کا باقاعدہ حصہ بنانے کے طریق کار کو اپنانے کے لیے گھناﺅنی اور مکروہ حرکت آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی ہے۔ اب آپ کا کیا خیال ہے، کہ مسئلہ کشمیر کے معاملے میں ٹرمپ ، بھارت کو چھوڑ کر ہماری مدد کرے گا، جو خود کہہ چکا ہے، کہ کچھ عرصہ قبل مودی مجھ سے مسئلہ کشمیر کے بارے میں بات کرچکا ہے، ٹرمپ تو وہ ”شاہ کار“ ہے جس نے علانیہ فلسطین کے مسلمانوں کی مدد کرنے کے بجائے، اسرائیل کی حمایت کی تھی، بقول حضرت اقبالؒ۔۔۔ تیری وفا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں ۔۔ فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے

Leave a Comment