سابق چیف جسٹس آف پاکستان ارشاد حسن خان کی خصوصی معلوماتی تحریر

Advertisements

لاہور (ویب ڈیسک) اُن دنوں جب پاکستان ٹوٹا میں وکالت کرتا تھا۔ میرے مشرقی پاکستان ہائیکورٹ کے مسٹر چیف جسٹس محبوب مرشد سے بہت اچھے مراسم تھے ۔ ساٹھ کی دہائی کے شروع میں پاکستان میں لاہور ہائیکورٹ کی سو سالہ تقریبات کا جشن منایا گیا ۔ اس جشن میں پوری دنیاسے قانون دانوں کو پاکستان آنے کی دعوت دی گئی تھی۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان ارشاد حسن خان اپنے ایک خصوصی کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ محبوب مرشد چیف جسٹس مشرقی پاکستان کے طور پر اس تقریب میں مدعو تھے۔ مجھے اس تقریب کا اہتمام کرنے والی کمیٹی نے محبوب مرشد کے ساتھ میزبان کے طور پرمتعین کیا۔یہاں سے میرے اورمحبوب مر شد کے ساتھ تعلقات کا سلسلہ شروع ہوا۔ محبوب مرشد کے توسط سے ہی میری مجید نظامی صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ محبوب مرشد کے بہترین دوستوں میں شامل تھے۔ محبوب مرشد مغربی پاکستان آتے تو مجیدنظامی ان کی دعوت کرتے اور ان دو کے علاوہ تیسرا میں اس دعوت میں شریک ہوتا تھا۔ محبوب مرشد ایک بڑے قانون دان اور انتہائی محب وطن پاکستانی تھے اور سادہ انسان تھے۔ایک بار وہ لاہور آئے تو میرے گھر تشریف لے آئے ،مجھے انہوں نے آگاہ نہیں کیا تھا مجھے اطلاع ہوتی تو انکے شایان شان چائے وغیرہ کا بندوبست کرنے کی کوشش کرتا۔وہ آئے تو میں کھانا کھا رہا تھا۔انہوں نے کسی بھی تکلف سے منع کرتے ہوئے میرے ساتھ کھانا کھایا۔ وہ میرے ساتھ اپنے بچوں کی طرح محبت کرتے اور بڑے بڑے لوگوں کے مقابلے میں میری بات اور رائے کو ترجیح دیتے تھے(اس حوالے سے تفصیلی تذکرہ میں نے اپنی کتاب معاون سے چیف تک میں کیا ہے) مگر جب شیخ مجیب الرحمن کا وہاں طوطی بولنے لگا تو وہ بھی اسی رومیں بہتے ہوئے مجیب الرحمن کے حامی ہو گئے ۔ اس کے بعد میں نے ان کے ساتھ پاکستان کی محبت میں قائم تمام تعلق ختم کردیا۔مجھے یہ بھی معلوم ہوا اس کے بعد مجید نظامی نے بھی محبوب مرشد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھا تھا۔
محبوب مرشد کی طرف سے مجھے ایک دو بار خط بھی ملے لیکن میں نے خط کا جواب دینا بھی مناسب نہ سمجھا۔ میرے جیسے لوگوں کی پاکستان سے بے پایاں محبت کا سبب شاید پاکستان بنتے دیکھنا ،بھارت سے آتے ہوئے مصائب کا سامنا کرنا ہوسکتا ہے۔اور پھر تحریک پاکستان کی بھی آنکھیں گواہ ہیں جس کا حصہ بننے کا فخر ہے لہٰذا پاکستان ٹوٹنے پر دل گرفتہ دل فگارہونا فطری امر ہے۔سقوط مشرقی پاکستان کی یاد آج نصف صدی کے قریب عرصہ گزرنے کے باوجود انگاروں پر لٹا دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے وقت زخموں کا مرہم ہوتا ہے مگر سقوط مشرقی پاکستان اور پاکستان کے دو لخت ہونے کا زخم بھرنے کا نام تک نہیں لیتا۔یہ صدمہ بھولے نہیں بھولتا۔ اس زخم اور درد کی ٹیسیں آج بھی اس سانحہ کے رونما ہونے کے پہلے روز کی طرح اٹھتی ہیں۔کاش یہ المیہ رونما نہ ہوتا اور قائد و اقبال کا دیا ہوا پاکستان تا قیامت سالم و ثابت موجود رہتا۔اب بہت کچھ کاش میں بدل گیا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات جو اس وقت مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کو پھنکارتا ہوا ناگ نظر آتے تھے۔ شاید بصیرت کی کمی تھی دیوار کے دوسری طرف دیکھنے کی عدم صلاحیت تھی یا مستقبل بینی کا فقدان تھا جو بھی تھا مجیب الرحمن کے چھ نکات کی مخالفت کرنے والوں نے سقوط کے ساتھ ہی سکوت اختیار کر لیا۔جن کی نیتیں درست تھیں وہ حب الوطنی کے جذبے کے تحت ہی چھ نکات کی مخالفت کر رہے تھے
تاہم چھ نکات کی حمایت اور مخالفت کرنے والے سب کے سب نیک نیت اور محب وطن نہیں تھے۔ نیک نیتی پر مبنی رائے رکھنے والے المیہ عظیم کے بعد انگلیوں کو دانتوں سے کاٹتے نظر آئے۔ایک تو ملک ہاتھ سے گیا، دوسرا پاکستان کو بد ترین ہزیمت سے دو چار ہونا پڑا۔ 93ہزار قیدی دشمن کی قید میں چلے گئے۔ اس سانحہ کی کیا تحقیقات ہوئیں؟۔حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کہاں ہے؟؟۔ اس میں کیا ہے؟؟؟۔ رپورٹ ہی سرکاری طور پر سامنے نہ آسکی تو اس کی سفارشات کیا تھیں ان کا ہی نہیں پتہ تو عمل تو بعد کی بات ہے۔ قومیں اپنے اعمال کا حساب کرتی ہیں۔خود احتسابی کرتی ہیں مگر اس حوالے سے ہم تاریخ کا ایک بے وقعت پرزہ ثابت ہوئے ہیں مگر وقت گزرا نہیںٹائم ابارڈ نہیں ہوا۔ آج بھی ہمیں اس معاملے کو لے کر حمو دالرحمن رپورٹ سے گرد جھاڑ کر خود احتسابی پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔یہ بھی ایک بڑا سوال ہے کہ حمود الرحمن رپورٹ لیک ہو کر سامنے بھی آئی تو بھارت سے لیک ہوئی۔ یہ بھی ایک تحقیق طلب امر ہے۔16دسمبر1971ء سے یہ سوال مجسم ملتجی ہے : پاکستان کیوں ٹوٹا؟ اس سوال کے کئی جوابات موجود ہیں۔ بدقسمتی سے ان میں سے کوئی جواب بھی معروضی یا Objective نہیں، بلکہ ہر جواب کی پشت پر کسی نہ کسی شخص، جماعت، طبقے یا ادارے کے مفادات موجود ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان ٹوٹنے کے باوجود بھی ہم پاکستان سے نہیں اپنے شخصی، جماعتی، طبقاتی یا اداراتی مفادات سے محبت کے اسیر ہیں۔
ہمیں پاکستان سے محبت ہوتی تو ہم یہ جاننے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا چکے ہوتے کہ برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کی آرزو، اقبال کے خواب اور قائداعظم کی تعبیر کو کس نے دولخت کیا؟ پاکستان کا حکمران طبقہ اس سلسلے میں اور کچھ نہیں کرسکتا تھا تو کم از کم حمودالرحمن کمیشن کی پوری رپورٹ ہی شائع کردیتا۔ یہ رپورٹ جنرل پرویز مشرف کے دور میں شائع بھی ہوئی تو بھارت کے رسالے ’انڈیا ٹوڈے‘ میں۔ حمودالرحمن کمیشن سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس حمودالرحمن کی سربراہی میں قائم کیا گیا۔ اس کے دیگر دو اراکین میں سپریم کورٹ کے جج جناب جسٹس ایس انوارالحق اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس طفیل علی عبدالرحمن شامل تھے۔ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل الطاف قادر کمیشن کے مشیر، اور سپریم کورٹ کے نائب رجسٹرار ایم اے لطیف کمیشن کے سیکریٹری تھے۔ کمیشن نے سقوطِ ڈھاکا کے حوالے سے 213 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے۔ کمیشن نے راولپنڈی میں یکم فروری 1972ء سے بیانات ریکارڈ کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور 12جولائی 1972ء کو اپنی رپورٹ اْس وقت کے صدر پاکستان کے حوالے کی تھی۔ مشرقی پاکستان کے باسیوں کے مغربی پاکستان کے حوالے سے بڑے تحفظات تھے۔ مشرقی پاکستان سے وکلاء آتے ان سے ملاقاتیں رہتی تھیں۔ وہ مغربی پاکستان کی ترقی اور مشرقی پاکستان کی پسماندگی کے شاکی رہتے تھے۔مغربی پاکستان میں کچھ لیڈر شپ کی سوچ اور رویوں سے بھی وہاں کے شہریوں کو دوسرے درجے کے شہری ہونے کا احساس ہوتا تھا۔اس پر بنگالیوں کے گلے شکوے تحفظات اعتراضات سے ہوتے ہوئے نفرتوں کی طرف بڑھنے لگے اورنوبت چھ نکات سے ہوتی ہوئی سقوط مشرقی پاکستان تک جا پہنچی۔کاش مجیب الرحمن کے چھ کے چھ نکات ہی مان لیے جاتے۔ ڈھیلی ڈھالی ہی سہی فیڈریشن تو برقرار رہتی ۔پاکستان تو موجود رہتا۔اس حوالے سے ہم نے بہت کچھ کھو دیا۔آدھا ملک گنوا دیا۔ اُس طرف کے مجیب الرحمن اور اس کے حامیوں نے اقتدار تو پالیا مگر انسانیت کھو دی۔ستم بالائے ستم جن لوگوں نے حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش کی ان کو تختہ دار کی سزائیں دی جا رہی ہیں۔رائیگاں حسرت نہ جائے گا یہ تیرا مشت غبار۔۔۔کچھ زمیں لے جائے گی کچھ آسماں لے جائے گا

Leave a Comment