جو لڑکیاں گنجے لڑکوں کا رشتہ مسترد کرتی ہیں ، شادی کے بعد 5 سال کے اندر انکے شوہر گنجے کیوں ہو جاتے ہیں ؟ ایک زبردست مزاحیہ تحریر

Advertisements

لاہور (ویب ڈیسک) سیاست میں ایک زمانہ میں حریف کی عزت کی جاتی تھی، اس کا احترام سیاست دان اپنے بیانات اور تقاریر میں کرتے تھے، لیکن اب تذلیل کی انتہا کرنے لگے ہیں، حد تو یہ ہے کہ مخالفین کی آڈیو اور وڈیو بھی لیکس ہونے لگ گئی ہیں۔بیس تیس سال بعدیہ سب ہمارے معاشرے کا حصہ بن جائے گا۔
نامور کالم نگار علی عمران جونیئر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔باباجی نے ایک مثال دی کہ ہمارے مذہب میں بہت سی چیزیں ایسی شامل کردی گئی ہیں جو نبی کریم ﷺ اور صحابی کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے زمانے میں بالکل بھی نہیں تھیں، لیکن اب ان چیزوں کواصل دین یا مذہب پر ترجیح دی جانے لگی ہے اور اس کے خلاف بولنے والوں پر کفر کے فتوے تک لگنے لگے ہیں، یعنی اب یہ ہمارے کلچر میں شامل ہوگیا ہے۔باباجی نے جب ہماری سڑی ہوئی شکل دیکھی تو اپنی مکروہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے ایک اور مثال دینے پر اتر آئے، کہنے لگے۔۔لفافہ انسانوں کے درمیان رابطے کا کام دیتا ہے۔ دو افرادکے ملاپ کا ذریعہ ہونے کے سبب لفافہ بڑا فیورٹ اور پسندیدہ رہا ہے اور موبائل فون سے پہلے ہر گھر میں سب سے زیادہ انتظار اسی کا ہوتا تھا۔زمانے کے ساتھ ساتھ لفافے کا استعمال بھی بدلتا رہا، پھر یہ ہوا کہ جب غیر قانونی نذرانوں کی تقسیم و ترسیل کا کاروبار شروع ہوا تو اس مشکل کام کے لیے لفافہ ہی کام آیااور جب میدانِ سیاست کے ’’چوہدریوں‘‘ نے صحافیوں میں پیسے بانٹنے کا آغاز کیا تو یہ بوجھ بھی لفافے نے ہی اٹھایا۔ لفافوں کے ذریعے مالِ حرام کی ترسیل کو اس قدر فروغ حاصل ہوا کہ’ لفافہ کلچر’ کے نام سے ایک نیا کلچر وجود میں آگیا۔باباجی کو جب لگا کہ کلچر کے حوالے سے
ان کا فلسفہ بہت زیادہ سنجیدہ ہوگیا ہے اور وہ ہمارے سر سے گزرگیا ہے تو وہ اپنے ’’اشٹائل‘‘ میں ہمیں سمجھانا شروع ہوئے،کلچر کی دو مزید آسان مثالیں سن لو۔۔ ایک یونیورسٹی میں لڑکے اور لڑکیوں کے دو الگ الگ گروپ بنائے گئے، لڑکوں کے گروپ نے ریسرچ کی کہ۔۔۔ جو لڑکیاں گنجے لڑکوں کا رشتہ مستردکردیتی ہیں تو شادی کے پانچ سال بعد ان کے شوہر گنجے ہو جاتے ہیں۔۔۔لڑکیوں نے جوابی ریسرچ رپورٹ میں انکشاف کیا کہ۔۔ جو لڑکے موٹی لڑکیوں کے رشتوں سے انکار کرتے ہیں ان کی بیویاں دو سال بعد ہی موٹی ہوجاتی ہیں۔۔۔دلہن کی رخصتی کے وقت ایک آنٹی اسے نصیحت کرنے لگی۔۔ بیٹی ایویں ایویں تھوڑا سا تو رو لو۔۔۔ جس پر وہ ماڈرن دلہن چلائی۔۔۔ روئے وہ جو مجھے لے کر جارہے ہیں۔۔ہم نے حیرت سے باباجی کو دیکھااور کہا۔۔ان مثالوں کی بھلا کلچر سے نتھی کرنے کی کیا ’’تُک‘‘ بنتی ہے؟؟ فرمانے لگے۔۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں رشتے مستردکرنے کی وبا پھیلی ہوئی ہے،یہ اسی طرح جاری رہی تو پھر سمجھو یہ بھی ہمارا کلچر بن جائے گا۔ اور پہلے ہمارا کلچر تھا کہ لڑکیاں رخصتی پر روتی ہیں، یہ کلچر بھی اب آہستہ آہستہ رخصت ہونے لگاہے۔۔اور اب چلتے چلتے آخری بات بھی کلچر کے حوالے سے ہی ہے۔۔تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو جمعہ کے روز مسجد جائے اور اپنی اپنی جوتی پہن کر واپس آئے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Leave a Comment