کچھ روز قبل لاہور میں انتقال کرجانیوالے ایک مالدار شخص کی زندگی کے آخری دن کا احوال ۔۔۔۔

Advertisements

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر امجد ایڈن ہاؤسنگ اسکیم کا مالک تھا‘ اس کے والد ڈپٹی کمشنر رہے تھے اور یہ آئی جی پنجاب سردار محمد چوہدری کا داماد تھا‘ اللہ تعالیٰ نے اس پر دولت کی بارش کی اور یہ اس بارش میں بھیگتا بھیگتا کیچڑ میں جا گرا‘ اس نے سب سے پہلے ایڈن ہاؤسنگ اسکیم
کے 13 ہزار ممبرز کے دس ارب روپے ہڑپ کیے اور پھر اس نے پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں نذر گوندل کے بھائی ظفر گوندل کے ساتھ مل کر ای او بی آئی کی رقم بھی اڑالی‘ ڈاکٹر امجد نے فرضی پلاٹ دے کر ظفر گوندل سے دو ارب روپے لیے تھے اور یہ دونوں بعدازاں یہ رقم آدھی آدھی کر کے نگل گئے۔متاثرین نے احتجاج شروع کیا‘ افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس تھے‘ سوموٹو ہوا‘ عدالت میں پیشیاں شروع ہوئیں‘ لاہور کے ایک وکیل کے ذریعے چیف جسٹس اور ملزم کے درمیان رابطہ ہوا اور یہ رابطہ بہت جلد رشتے داری میں بدل گیا‘ ڈاکٹر امجد کے صاحبزادے مرتضیٰ امجد اور افتخار محمد چوہدری کی صاحبزادی افرا افتخارکی شادی ہو گئی اور یوں ایڈن ہاؤسنگ اسکیم اور ای او بی آئی کے کیسز کھوہ کھاتے چلے گئے‘ دور بدلا‘ نیب کے مقدمے شروع ہوئے تو پورا خاندان ملک سے بھاگ گیا‘ نیب نے ریڈ وارنٹ جاری کر دیے‘ ایف آئی اے نے 26 ستمبر 2018 کو مرتضیٰ امجد کو دبئی سے گرفتار کر لیا‘ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج نے ریڈ وارنٹ کو غیرقانونی قرار دے دیا اور یہ لوگ خاندان سمیت کینیڈا شفٹ ہو گئے‘ کیسز چلتے رہے ‘ فراڈ کی رقم 25 ارب روپے تک پہنچ گئی۔یہ اس دوران پلی بارگین کے لیے بھی راضی ہو گیا لیکن یہ تین ارب روپے دے کر 25 ارب روپے معاف کرانا چاہتا تھا‘ نیب نہیں مانا‘ یہ اس دوران کسی پراسرار بیماری کا شکار ہو گیا‘ پاکستان آیا‘ علاج شروع ہوا
لیکن طبیعت بگڑتی رہی یہاں تک کہ دنیا بھر کے ڈاکٹرز‘ ادویات اور افتخار محمد چوہدری کا اثرورسوخ بھی کام نہ آیا اور ڈاکٹر امجد 23اگست 2021کو لاہور میں انتقال کر گیا‘ لواحقین نے اسے خاموشی کے ساتھ دفن کرنے کی کوشش کی لیکن متاثرین کو خبر ہو گئی اور یہ پلے کارڈز اور پوسٹرزلے کر پہلے اس کے گھر اور پھر جنازے پر پہنچ گئے اور ’’ہماری رقم واپس کرو‘‘ کے نعرے لگانے لگے‘ پولیس بلائی گئی‘ پولیس جنازے اور احتجاجیوں کے درمیان کھڑی ہو گئی‘ پولیس کی مدد سے جنازہ اٹھایا گیا اور پولیس ہی کی نگرانی میں ڈاکٹر امجد کو دفن کیا گیا‘ آج اس واقعے کو 8دن ہو چکے ہیں لیکن متاثرین اس کی قبر پر بھی آ جاتے ہیں جس کی وجہ سے خاندان نے وہاں گارڈز کھڑے کر دیے ہیں۔یہ انتہا درجے کا عبرت ناک واقعہ ہے لیکن آپ اس سے بھی بڑی عبرت ملاحظہ کیجیے‘ ڈاکٹر امجد نے جس خاندان اور جن بچوں کے لیے 25 ارب روپے کا فراڈ کیا تھا‘ وہ جنازے کے وقت کینیڈا میں بیٹھے تھے اور ان میں سے کوئی شخص اسے مٹی کے حوالے کرنے کے لیے پاکستان نہیں آیا تھا۔یہ واقعہ دولت کے پیچھے باولے ہونے والے بے وقوفوں کے لیے نشان عبرت ہے‘ یہ ثابت کرتا ہے انسان جب ہوس کے کیچڑ میں گرتا ہے تو یہ پھر انسان نہیں رہتا‘ یہ بدبودار کیچڑ بن جاتا ہے‘ آپ نے کبھی غور کیا دولت آخر ہے کیا؟ یہ صرف کاغذ کے ٹکڑے ہیں اور یہ کاغذ کے ٹکڑے جل بھی سکتے ہیں۔ گل بھی سکتے ہیں‘ پھٹ بھی سکتے ہیں اور کینسل بھی ہو سکتے ہیں
یا پھر دولت بینکوں کی اسٹیٹمنٹ پر چھپی ہوئی چند فگرز اور ان کے آخر میں بے شمار صفر ہے اور یہ صفر اور یہ بینک بھی کسی بھی وقت ختم ہو سکتے ہیں یا پھر دولت اللہ کی زمین کے چند ٹکڑے ہے اور ان ٹکڑوں کا اصل مالک کون ہے؟ ہمارا رب اور یہ رب جب چاہے اپنی لیز جس کے نام چاہے شفٹ کر دے اور بس‘سوال یہ ہے ہم پھر پرائے مال کے لیے کیوں باولے ہوجاتے ہیں‘ ہم زمینی ٹکڑوں‘ بینکوں کے زیروز اور کاغذ کے نوٹوں کے لیے بددعاؤں کی فصل کیوں بوتے ہیں؟ ہم لوگوں کی آہیں۔ بددعائیں اور لعنتیں کیوں اکٹھی کرتے ہیں اور کس کے لیے کرتے ہیں؟ ان کے لیے جو ہماری آنکھیں بند ہوتے ہی ہمارے مال کے لیے ایک دوسرے کا گلا کاٹنے لگتے ہیں یا ہم سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر ابا مرحوم‘ ابا مرحوم کہتے رہتے ہیں اور ہمیں دفن پرائے لوگ کرتے ہیں‘ میں اکثر اپنے دوستوں سے عرض کرتا ہوں آپ کی عمر اگر 50 سال ہو چکی ہے تو آپ پلیز پلیز اپنی چارج شیٹ سے گناہ‘ حرص اور فراڈ کو خارج کر دیں‘ آپ نے جس سے معافی مانگنی ہے مانگ لیں۔جس کو جو دینا ہے دے دیں اور جتنی توبہ کرنی ہے کر لیں‘ آپ کے پاس زیادہ مہلت نہیں ہے‘ زندگی کی رسی کسی بھی وقت کھینچ لی جائے گی اور آپ یہ حقیقت جتنی جلدی سمجھ جائیں گے آپ کے لیے اتنا ہی اچھا ہو گا اور آپ یہ بھی جان لیں چیونٹیوں کا اکٹھا کیا ہوا رزق ہمیشہ چوہے کھاتے ہیں لہٰذا خدا کے لیے چیونٹیوں کی زندگی نہ گزاریں‘ اپنے قد سے بڑے دانے نہ کھینچیں اور اپنی ضرورت سے زیادہ جمع نہ کریں‘ آپ کی حرص آپ کو جینے نہیں دے گی اور آپ کا جمع کیا ہوا پلے کارڈ بن کر آپ کے جنازے کے آگے آگے چلتا رہے گاجب کہ آپ کی ہوس کے بینی فشری پانچ دس ہزار کلو میٹر دور بیٹھ کر اپنے دوستوں کو ’’مائی ڈیڈ پاسڈ اوے‘‘ کے میسج کرتے رہیں گے اور ان کے دوست ’’اووو‘‘ کا جواب دے کر پارٹی میں مصروف ہو جائیں گے چناں چہ رک جائیں‘ آگے کھائی ہے اور اس کھائی میں ڈاکٹر امجد جیسے ہزاروں لوگ گرے پڑے ہیں۔

Leave a Comment