پاکستانیو : آنکھیں کھولو ، ہوش پکڑو ، عمران خان نے واقعی پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنا دیا ہے ۔۔۔۔۔۔

Advertisements

لاہور (ویب ڈیسک) ہم نے کسی دن سوچا ہم اس حالت تک کیوں اور کیسے پہنچے ہیں ؟ ہم نے اگر ماضی میں نہیں سوچا تو ہم آج اس دن ہی سوچ لیں جب 50 سال پہلے مشر قی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا تھا‘ وہ تاریخ کا عجیب دن تھا ‘ جب اکثریت نے اقلیت کو چھوڑ دیا تھا ‘ نامور
کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔دنیا میں ہمیشہ اقلیت اکثریت سے الگ ہوتی ہے لیکن بنگالی اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی ہم سے جدا ہو گئے تھے‘ کیا آج ہم ان کے فیصلے کو غلط قرار دے سکتے ہیں؟ بنگالی غریب تھے‘ کم زور تھے‘ منحنی اور کالے کلوٹے تھے جب کہ ہم خوب صورت‘ لمبے تڑنگے‘ شیں جوان اور امیر تھے لیکن آج ہم کہاں کھڑے ہیں اور وہ کہاں ہیں؟ آج بھارت بھی کہاں کھڑا ہے؟ آج وہاں 237بلینئر ہیں اور بھارتی دنیا کی تمام بڑی ٹیک کمپنیوں کے سی ای اوز بھی بن چکے ہیں‘یہ گلوبل پاور بن رہا ہے اور ہم ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔آج امریکا بھی ہم سے ناراض ہے‘ روس بھی اور چین بھی ہمیں پریشانی کے عالم میں دیکھ رہا ہے‘ پورے ملک میں مظاہرے بھی چل رہے ہیں اور صوبے صوبوں سے لڑنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں مگر ہم اس کے باوجود آنکھ کھولنے اور ہوش کے ناخن لینے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ ہم آج بھی مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگوں کو بتا رہے ہیں ’’نہیں تمہیں غلط فہمی ہو رہی ہے‘ ہمارا ملک تو دنیا کا سستا ترین ملک ہے‘‘ ہم آخر کس کو
دھوکا دے رہے ہیں‘ ہم کس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔مجھے کل ایک صاحب بتا رہے تھے‘ ہمارے لیڈر عمران خان نے دعویٰ کیا تھا ’’میں ملک کو قائداعظم کا پاکستان بناؤں گا ‘‘آپ دیکھ لیں ہم نے ملک کو قائداعظم کا پاکستان بنا دیا‘ قائداعظم کے زمانے میں بھی بجلی‘ گیس اور پٹرول نہیں تھا‘ لوگ بے گھر تھے‘ ٹرانسپورٹ نہیں ملتی تھی‘ ڈالر ناپید تھا‘ انڈسٹری بند پڑی تھی‘ سرکاری اہلکاروں کی تنخواہوں کے لیے رقم نہیں تھی اور دفتروں میں کامن پن کی جگہ کیکر کے کانٹے استعمال ہوتے تھے۔آج بھی حالات ویسے ہی ہیں لہٰذا قائداعظم کا پاکستان بن چکا ہے بس اب ’’ریاست مدینہ ‘‘باقی ہے جس دن یہ بھی بن جائے گی اس دن کپتان کا خواب پورا ہو جائے گا‘ وہ یہ فرما کر ہنس پڑے لیکن میں انھیں سنجیدگی سے دیکھتا رہا اور پھر ان سے کہا’’ بھائی جان کیا آپ کو واقعی حالات کی نزاکت کا احساس نہیں‘‘ وہ ہنسے اور پھر سنجیدگی سے بولے’’ نہیں کیوں کہ ذمے دار ہم نہیں ہیں وہ ہیں جو ہمیں لائے تھے اور جن کی وجہ سے ہم آج بھی یہاں ہیں‘‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’آپ یہ یاد رکھیے گا ایکسیڈنٹ کا ذمے دار ہمیشہ ڈرائیور ہوتا ہے‘ مینوفیکچرر نہیں‘ تاریخ کا بوجھ بہرحال آپ ہی کو اٹھانا پڑے گا‘‘وہ ہنسے ‘ کندھے اچکائے اورکہا ’’ہم وہ بوجھ بھی اٹھا لیں گے‘ وہ آخر کتنا بھاری ہو گا؟‘‘

Leave a Comment