انتہائی بدحالی کا شکار یہ شخص کسی دور میں پاکستان کا فخر ہوا کرتا تھا ۔۔۔!!! بھلا یہ کون ہے ؟ جانئے

Advertisements

کراچی (ویب ڈیسک) نامور صحافی محمد زبیر خان بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے میری ملازمت پر بحال نہ کیا گیا اور میرا علاج نہ کیا گیا تو میں کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجاً اپنے ملکی اور بین الاقوامی طلائی تمغے جلا دوں گا۔ اب ان تمغوں کا میں کیا کروں؟‘یہ کہنا ہے پاکستان کے مایہ ناز
باکسنگ سٹار عبدالرشید قمبرانی کا جو 16 برس تک پاکستان کے نیشنل چمپین رہے، دو مرتبہ سیف گیم کے گولڈ میڈلسٹ قرار پائے، ایشیا کے ٹاپ اور ورلڈ ریکنک میں پانچویں نمبر پر رہے۔عبدالرشید قمبرانی چند ہفتے قبل اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اپنی بہن کے گھر منتقل ہوئے جب ایک حادثے میں ان کا ایک بازو فریکچر ہواـگذشتہ متعدد برسوں سے ان کی ٹانگ پر بھی گہرے زخم موجود ہیں۔ عبدالرشید قمبرانی کے مطابق وہ ڈاکٹرز کو علاج کے لیے 25 ہزار روپے ادا نہ کر سکے تو انھوں نے علاج سے انکار کر دیا جس کے بعد انھوں نے اپنے بازو اور ٹانگ پر موٹر سائیکل کے ٹائر کی ناکارہ ٹیوب چڑھا لی۔عبدالرشید قمبرانی کے علاوہ ایک کمرے کے مکان میں پانچ مکین اور بھی رہائش پذیر ہیں۔عبدالرشید قمبرانی کہتے ہیں کہ مجبوری میں اس گھر میں پناہ حاصل کی ہے کیونکہ سٹیل مل کراچی میں 27 سال تک ملازمت کرنے کے بعد چند ہفتے قبل مجھے بتایا گیا ہے کہ اب میں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہوں۔ سٹیل مل کی رہائشی کالونی میں موجود گھر بھی خالی کرنا پڑا۔عبدالرشید قمبرانی کے مطابق بچپن میں مجھے میرے بھائی محمد یونس قمبرانی سخت ترین تربیت دیا کرتے تھے تو کہتے تھے کہ محنت کرو اس کا پھل ملے گا۔۔ اور پھل ملا بھی تھا۔عبدلرشید قمبرانی کے مطابق جب وہ رنگ میں اترے تو ہجوم علی علی کے نعرے لگاتا تھا۔’جب میں باکسنگ رِنگ میں جاتا
تو لوگ مجھے لڑتا دیکھ کر محمد علی کلے کو یاد کیا کرتے تھے۔ عبدالرشید قمبرانی کہتے ہیں ’مجھے لوگوں نے دوسرا محمد علی کلے کا نام دے رکھا تھا۔‘ان کے مطابق ’اب بھی جن لوگوں نے میری باکسنگ دیکھ رکھی ہے، وہ لوگ مجھے دیکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔‘عبدالرشید قمبرانی نے 2001 میں باکسنگ چھوڑ دی تھی۔ اس کے بعد سے وہ کوچنگ کر کے اپنا گزر بسر کر رہے تھے مگر انھیں دس پندرہ ہزار روپے تک ہی آمدن ہوتی تھی۔عبدالرشید قمبرانی کہتے ہیں کہ ٹانگ اور دل کے مسائل کا تو وہ پہلے ہی شکار تھے لیکن چند دن ہوئے ایک موٹرسائیکل سوار کی ٹکر سے ان کا بازو بھی فریکچر ہو گیا۔’علاج کے لیے ہسپتال گیا تو انھوں نے کہا کہ تین دن بعد آنا اور ساتھ میں بتایا کہ پندرہ ہزار روپے بھی ساتھ لانا۔ میں نے ان کے ساتھ بہت بحث کی تھی کہ پندرہ ہزار روپے کس بات کے مگر وہ نہیں مانے تھے۔ تین دن تک میں نے ان پیسوں کا انتظام کیا مگر جب تین دن بعد ہسپتال گیا تو انھوں نے کہا کہ 25 ہزار لگیں گے۔‘’اب یہ 25 ہزار میں کہاں سے لاتا؟ وہ پندرہ ہزار کسی اور معاملے میں خرچ ہو گئے تھے، جس کے بعد میں نے اپنا دیسی طریقہ علاج اختیار کر لیا۔‘’ایک پنکچر والے سے ناکارہ ٹیوب دو سو روپے میں خرید کر اس کو کاٹ کر اپنے بازو اور ٹانگ پر چڑھا لیا ہے۔ خیر ہے میں پہلے بھی ایسے کرتا رہا ہوں مگر مزید دکھ یہ ہے کہ میں اب اپنے بچوں سے
بھی بچھڑ چکا ہوں۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس وقت میرے پاس میرے دل کی بیماری کی دوائی کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ بہن کوشش کر رہی ہے مگر وہ غریب بھی کیا کرے۔’میں بہن کے گھر اور میرے بچے اپنے نانا نانی کے گھر میں ہیں۔ میری اہلیہ وفات پا چکی ہیں۔ بیماری کے سبب کئی دن تک ان کو دیکھنے بھی نہیں جا سکتا ہوں۔ اس عمر میں بچوں سے بھی جدا ہونا بہت تکلیف دہ ہے۔ ان کو پاس رکھ بھی نہیں سکتا کہ رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔‘عبدالرشید قمبرانی کہتے ہیں کہ سٹیل مل میں ملازمت ملنے کا وہ زمانہ تھا، جب میں نے شاید پہلی یا دوسری مرتبہ نیشنل چمپئین شپ جیتی تھی۔ اس کے بعد پہلی مرتبہ سیف گیمز میں کامیابی حاصل کی، جس کے بعد مجھے سٹیل مل میں شمولیت کی دعوت دی گئی تو بخوشی اس وقت تقریباً سات ہزار ماہانہ تنخواہ پر یہ آفر قبول کی۔ان کے مطابق ’وہ وقت میرے عروج کا دور تھا‘۔عبدالرشید قمبرانی کے مطابق ’مجھے جاپان اور امریکہ سے بھی کھیلنے اور وہاں جانے کی دعوت ملی تھی مگر میں نے پاکستان اور سٹیل مل کو ترجیح دی‘۔ان کے مطابق ’آج جب مجھے سٹیل مل سے ملازمت سے فارغ کیا گیا تو تقریباً 27 سال بعد میری تنخواہ 57 ہزار روپے تھی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے بنگلے، کوٹھیاں اور کاریں دو۔ یہ بھی نہیں کہتا کہ لاکھوں روپے دو مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ مجھے میرے حق سے تو محروم
نہ کیا جائے گا‘۔پاکستان کے سابق باکسنگ سٹار کا کہنا ہے کہ ’میں نے ساری زندگی اپنا سر نہیں جھکایا۔ رنگ میں پاکستان کا پرچم سب سے بلند رکھا۔ اب بیماری اور حالات کے ہاتھوں بہت مجبور ہوچکا ہوں۔ پھر بھی کہتا ہوں کہ مجھے کچھ زیادہ نہیں بس اپنا حق چاہیے۔‘عبدالرشید قمبرانی کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کہ میرے باکسنگ کرئیر میں مسائل نہیں تھے، وہ کرئیر بھی مسائل سے بھرا ہوا تھا۔ان کے مطابق ’میں ایشین چمپئین شپ میں سخت مقابلے کے بعد سلور میڈل حاصل کر کے عالمی مقابلوں کے لیے کوالیفائی کر چکا تھا مگر اس وقت بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے ان مقابلوں میں شریک نہیں ہو سکا۔‘عبدالرشید قمبرانی کے مطابق اس کے باوجود انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ’سیف گیمز اور ایشین گیمز میں تو میڈل جیتے ہی تھے مگر اس کے علاوہ ایران، بلغاریہ اور دیگر کئی عالمی مقابلوں میں بھی پاکستان کے لیے میڈل جیتے۔‘ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ’حقیقی معنوں میں اپنی زندگی اور جوانی پاکستان اور باکسنگ کو دی۔‘

Leave a Comment